عام طور پر جب بات کی جاتی ہے معاشرتی رویوں کی تو ہر بچے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کو خوش دیکھیں.
لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب یہی بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور کسی حد تک ان کا انحصار والدین پر کم ہوجاتا ہے تو وہ والدین سے دور ہونے لگتے ہیں ایسی صورت میں والدین تنہا پڑ جاتے ہیں اورانہیں بچوں کی دوری کا احساس ہونے لگتا ہے خواہ والدین ایک دوسرے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر سنگل والد یا والدہ ہوں تو مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
’پوری زندگی ہم پر قربان کردی‘، بیٹے نے 18 سال بعد ماں کی شادی کروا دی، ویڈیو وائرل
عموما ایسی صورت میں بچے اگر اپنے سنگل والد یاوالدہ کی دوسر ی شادی کا سوچتے بھی ہیں تو لیکن ان کے درمیان اس فیصلے کو لے کر ایک کھنچاو اور جھجھک سی ہوتی ہے۔ لیکن اب حالات بدل ہوچکے ہیں سوچ بدل چکی ہے اور اسکا کریڈٹ کسی حد تک ہماری سیلیبریٹیز کو جاتا ہے جس کی ایک بڑی مثال ماہرہ خان کی ہے جن کی شادی میں ان کے بیٹے پیش پیش تھے ۔اسی طرح ایک اور اینکر پرسن سعدیہ افضال نے بھی دوسری شادی کی ہے اور ان کی شادی میں ان کی ٹین ایج بیٹی آگے آگے تھی۔
’کسی کے نکاح پر پہلی بار گواہ بنا تھا، وہ بھی اپنی اماں کے‘، عبدالاحد کا انکشاف
گو آج کے بچے یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اگر ان کے والد یا والدہ نے تنہا زندگی کے کئی سال گذارے ہیں تو یہ ان کا حق ہے کہ اپنے لیے خوشیاں تلاش کرے۔
ایسی ہی ایک مثال عبدالاحد کی ہے۔ جن کی والدہ نے اپنی زندگی کے 18سال انکی پرورش میں گذار دیے اور انہوں نے اپنی والدہ کو نئے سفر کے لیے مکمل طور پر سپورٹ کیا۔ ان کے اس جذبے کو سوشل میڈیا پر بہت سراہا گیا اور ان کی اپنی والدہ کی شادی میں آگے رہنے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
آج نیوز کے مارننگ پروگرام ”آج پاکستان“ سے ایک خصوصی گفتگو میں انہوں نے اس بارے میں بتایا کہ انہیں کس جذبے نے آگے بڑھایا اور اس میں انہیں کس مشکل یا آسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنے والدہ کو اس فیصلے پر آمادہ کرنے میں کتنا وقت لگا تو ان کا جواب تھا۔ دراصل ایک دن میرے آفس سے واپس آنے سے بعد میری والدہ نے میرے کمرے میں آکر مجھ سے اس رشتے کاذکر کیا تھا جو میری بہن طوبی کے ذریعے آیا تھا لیکن میں نے اسے سرسری طور پر لیا کیونکہ میری والدہ عام طور پر ان باتوں پر دھیان نہیں دیتی تھیں لیکن جب دوسری بار انہوں نے مجھ سے ان کا ذکر کیا اور کہا کہ ان صاحب کی کال والدہ کے پاس آئی ہے اور انہوں نے مجھے ان سے بات کرنے کے لیے کہا تو مجھے لگا کہ والدہ کی تھوڑی بہت دلچسپی ہے۔
اس کے بعد میں نے تمام چیزوں کو پس پشت ڈال دیا کیونکہ مجھے اپنے لیے اب بھی انکی کہیں نہ کہیں ضرورت رہتی ہے اور شاید یہ سوچ ہی ان کی دوسری شادی کرنے سے انکار کی بڑی وجہ تھی۔
انہیں پہلی گفتگو میں انکے ہونے والے والد کیسے لگے انہوں نے کہا کہ جب میری ان سے بات چیت ہوئی تو مجھے ان کا بیٹا بیٹا کہہ کر بات کرنا بہت اچھا لگا اور یہ وہ لفظ ہے جسے میں اپنی زندگی میں بہت مس کرتا ہوا آرہا تھا اس کے علاوہ مجھے ان کی بات چیت کے انداز سے وہ بہت معقول لگے اور سب سے بڑھ کر وہ میری والدہ کو ان کے بچوں سمیت قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔
جب ان سے پوچھاگیا کی وہ اپنی والدہ کے لیےکیسا جیون ساتھی چاہتے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میری والدہ کو ایسا شخص ملے جو انہیں زندگی کا مثبت پہلو دکھائے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو قبول کرے اور یہ قدرت کی طرف سے ہی تھا کہ میری بہن نے جاب کی ان کی ایک دوست بنی جو اپنے چاچو کے لیے میری والدہ کا رشتہ لائی ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نومبر سے پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوگا لیکن اچانک ہی رشتہ طے ہوجانا اور پھر ان کا اپنے ملک واپس آجانا اور آنافانا شادی کا ہوجانا یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز ہے۔
معاشرے میں ایک والد کی دوسری شادی کی نسبت والدہ کی دوسری شادی کو تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ اسے چھپایا جاتا ہے کہ کسی کو اس کاعلم نہ ہو لیکن عبدالاحد نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے سوچاکہ اس خبر کو دوسروں تک پھیلانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے کی سوچ کو بدلا جاسکے اور ان کا یہ قدم یقینا قابل تحسین ہے۔