پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے والا قاضی فائز عیسیٰ آج تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے اور میں اپنی قوم کے لیے ہمیشہ کھڑا رہوں گا۔
منگل کے روز اڈیالہ جیل میں وکلا ٹیم اور میڈیا سے گفتگو کے دوران قوم کے نام پیغام جاری کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 13 جنوری 2024 کو تحریک انصاف کو عملاً ختم کرنے کی نیت سے انتخابی نشان سے محروم کرنے والا قاضی فائز عیسیٰ آج تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے جبکہ تحریک انصاف اور عمران خان اپنے نظریے کے ساتھ آج بھی پورے قد سے کھڑے ہیں، بلاشبہ جھوٹ اور بد دیانتی کی عمر ہمیشہ تھوڑی ہوتی ہے اور سچ ہمیشہ رہنے والا ہوتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں جج صریحا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے، القادر کیس کا ٹرائل ہمیشہ 11:30 سے 12 بجے کے درمیان شروع ہوتا ہے، کل بھی اس کیس کی سماعت کے لیے 11 بجے کا وقت مقرر تھا لیکن میرے وکلا کی آمد سے بھی قبل قریباً 9 بجے مجھے اطلاع دی گئی کہ جج صاحب آگئے ہیں۔
سابق ویزراعظم کا کہنا تھا کہ میری نقل و حرکت جیل تک محدود ہوتی ہے اور میرا قانونی حق تھا کہ میں وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہو سکتا جن کو عدالت کی جانب سے 11 بجے کا وقت دیا گیا تھا، پہلے 2 مقدمات میں جج ابولحسنات اور محمد بشیر میری عدم موجودگی میں فیصلہ سنا چکے ہیں بالکل اسی طرح اس کیس کا فیصلہ بھی سنایا جا سکتا تھا مگر میری عدم موجودگی کا جواز بنا کر فیصلہ مؤخر کر دینا انتہائی مضحکہ خیز اور عدالتی نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس کا آغاز تب ہوا تھا جب حسن نواز شریف نے 9 ارب روپے کی پراپرٹی 18 ارب روپے میں ملک ریاض فیملی کو بیچی اور این سی اے نے مشتبہ ٹرانزیکشن پر کارروائی کا آغاز کیا، این سی اے نے ہی ان سے سوال کیا کہ یہ جائیداد دگنی قیمت پر کیوں فروخت کی گئی، سب سے پہلے تو نواز شریف اپنے بیٹے کا جواب دے کہ یہ 9 ارب روپیہ اضافی کس طرح ان کے بیٹے نے ملک ریاض سے حاصل کیا؟
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہمارے دور میں کابینہ کی اس حوالے سے ذمہ داری کا تعلق ہے تو یہ رقم براہ راست این سی اے نے ملک ریاض فیملی کے ذریعے پاکستان منتقل کی تھی اور ہمارا فرض صرف مخفی رکھنے کے اس معاہدے کو برقرار رکھنا تھا اور ہم نے پاکستان کے فائدے کے لیے منظوری دی کیونکہ اس سے پہلے ایک ساتھ پاکستان میں اتنی رقم کبھی نہیں آئی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کا اس رقم سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ ٹرسٹ تو اس رقم کی آمد سے ایک سال قبل ہی قائم ہو چکا تھا اور اس کا مقصد صرف اور صرف دور دراز کے طلبا کو سیرت النبی ﷺ کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم دے کر ان کے لیے علم کی شمع روشن کرنا تھا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ القادر ٹرسٹ سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں ہے، یہ ٹرسٹ شوکت خانم اور نمل کی طرز پر ایک فلاحی ادارہ ہے، اس کو اگر بند بھی کر دیا جاتا ہے تو یہ رقم ان افراد کو واپس جائے گی جو اس کے donors ہیں، مجھے اس رقم سے کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں واضح کر دوں کہ میں کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کروں گا، چاہے یہ جو بھی حربے استعمال کرلیں، میں کوئی نواز شریف نہیں ہوں جس نے اپنے اربوں کے کرپشن کیسز معاف کروانے ہیں، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے اور میں اپنی قوم کے لیے ہمیشہ کھڑا رہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی قیدیوں سے بدترین سلوک جاری ہے، ملٹری تحویل میں ہمارے کارکنان کو سخت ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یے، میرے ساتھ بھی بدترین سلوک کیا گیا، سمیع وزیر سمیت دیگر کئی کارکنان پر بیہیمانہ تشدد کیا گیا، ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی اس قانون اور انسانی حقوق کی پامالی پر ایکشن لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے سپریم کورٹ ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دے چکے ہیں مگر کہیں ہماری شنوائی نہیں ہوئی، ہمارے پاس بین الاقوامی فورمز پر آواز بلند کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے، اس حوالے سے میں عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو ایک خط بھی لکھوں گا تا کہ ان بے قصور شہریوں کی شنوائی ہو، میرا اوورسیز پاکستانیوں سے بھی مطالبہ ہے کہ اس حوالے سے اپنی آواز بلند کریں، ملک میں تحریک انصاف کو کچلتے کچلتے پورے نظام کو ہی روند دیا گیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ملک میں معیشت کا حال بدترین ہے، بیرونی سرمایہ کاری تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، ایس آئی ایف سی اور اڑان پروگرام بری طرح ناکام ہوئے ہیں، گروتھ ریٹ نہ بڑھنے سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، شاندار دماغ اور سرمایہ ملک سے تیزی سے باہر جا رہا ہے کیونکہ کسی کو اس ملک کے استحکام پر یقین نہیں رہا، پاکستانی کمپنیاں اپنا کاروبار دبئی منتقل کر رہی ہیں، ایسے ملک میں کبھی معاشی استحکام آہی نہیں سکتا جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو، پاکستان معاشی بحران میں دب چکا ہے اور جب تک عوامی اعتماد کی حامل حکومت نہ لائی گئی، اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔