Aaj Logo

شائع 14 جنوری 2025 09:05pm

لندن کی ریل میں شہری بنا پتلون کے کیوں سفر کرنے لگے؟

لندن کی ریل میں شہری بنا پتلون کے کیوں سفر کرنے لگے؟ ”نو ٹراؤزر ٹیوب رائیڈ“ کی سالانہ تقریبمیں سیکڑوں لوگوں نے حصہ لیا۔

لندن کی ’نو ٹراؤزر ٹیوب رائیڈ‘ میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ ڈیو سیلکرک نے تقریب کی قیادت کرتے ہوئے سردیوں کے خوفناک دن کا آغازکیا، 2002 میں نیویارک میں شروع ہونیوالا عجیب وغریب تہوار اب عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔

گذشتہ روز لندن کے مسافروں کو اس وقت کافی حیرت ہوئی جب سیکڑوں مسافروں نے اپنی پتلونیں اتار کر انہیں فرش پر رکھ دیا، یہ سب کچھ ’ٹیوب‘ ( پبلک ٹرانزٹ سسٹم جو لندن اور آس پاس سفری سہولیات فراہم کرتا ہے) کے اندر اچانک سے ہوا۔

واضح رہے کہ ’نو ٹراؤزر ٹیوب رائیڈ‘ تفریح ​​کے نام پر ہونیوالی سالانہ تقریب ہے، سردیوں کے دن کو ہنسی خوشی اور بہت ساری ننگی ٹانگوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، ایسا عجیب تہوار پہلی بار 2002 میں نیویارک امریکا میں منعقد ہوا تھا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’نو ٹراؤزر ٹیوب رائیڈ‘ لندن میں منعقد ہونیوالی سالانہ تقریب ہے، 2009 میں لندن نے نرالی روایت کو اپنایا اور تب سے یہ ہر سال کی خاص بات بن چکی ہے۔

لندن شہر کے مکینوں نے بتایا کہ بنا پتلون کئی لوگ برفیلی گلیوں سے ہوتے ہوئے وسطی لندن کے پیکاڈیلی سرکس انڈر گراؤنڈ اسٹیشن تک پہنچے۔

یاد رہے کہ کامیڈین چارلی ٹوڈ نے 2002 میں نیویارک میں خواب دیکھا تھا، جس کا تصور تھا کہ اگر لوگ موسم سرما میں سب وے پر سوار ہوں تو کیا ہوگا؟

ان کے جسم پر سوائے ایک چیز کے کوئی پتلون نہ ہو؟ اس خیال نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور عالمی سطح پر یہ تہوار برلن، پراگ اور وارسا جیسے شہروں میں پھیل گیا۔

40 سالہ پرسنل ٹرینر ڈیو سیلکرک کی قیادت میں بغیر پتلون چھوٹا سا زیر جامہ پہننے کے بریگیڈ نے پیکا ڈیلی سرکس اسٹیشن جانے سے پہلے مخصوص مقام چائنا ٹاؤن پر جمع ہو کر ایونٹ کا آغاز کیا۔ وہاں سے وہ ٹرینوں میں سوار ہوئے اور باقاعدہ مسافروں کے ساتھ گھل مل گئے۔

سیلکرک نے بتایا کہ “ اتنی سردی میں یہ سالا نہ تہوار بہت برا ہے، اتنا مزہ نہیں آرہا ہے“، “ لیکن لوگوں کی تفریح کے لئے یہ سب کچھ کرنا اچھا لگتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے ’نو ٹراؤزر ٹیوب رائیڈ‘ کو موبائل فونزکے ذریعے تصاویر اور ویڈیوز سے محفوظ کیا، اخبارات پڑھے اورایسے گپ شپ کی، جیسے کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہو رہا۔ تاہم اس دوران غیر ملکی سیاحوں اور بعض سنجیدہ مسافروں نے ہمیں الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

سردیوں کے موٹے کوٹ میں لپٹے باسل لانگ نامی وکیل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ گلابی انڈرویئر، دھاری والی قمیض اور جرابیں۔ “میں نے یہ سب کچھ دیکھا اور سوچا کچھ نہیں۔

43 سالہ شیف مریم کوریا نے بھی خوبصورتی کے معیارات میں فخر سے حصہ لیتے ہوئے کہا کہ “میں ایک عورت ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ تمام انسان ایک جیسے ہیں۔

Read Comments