Aaj Logo

شائع 13 جنوری 2025 11:35am

سویلینز کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹ میں پیش کئے گئے شواہد کا جائزہ لینے کا مطالبہ کردیا

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں خصوصی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ہے، عدالت نے خصوصی عدالتوں میں پیش کئے گئے شواہد کا جائزہ لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے اور اپنے دلائل وہیں سے شروع کئے جہاں گزشتہ سمارعت میں چھوڑے تھے۔ بینچ نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ مناسب ہوگا کل تک اپنے دلائل مکمل کر لیں۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے؟ مقدمات منتقل کیوں ہوئے اس کو مختصر رکھیے گا، ججز کے اس حوالے سے سوالات ہوئے تو آخر میں اس کوبھی دیکھ لیں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن 59 (4) کو بھی کالعدم قراردیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے دفعات 2D (1) اور2D (2) کے تناظر میں آرمی ایکٹ دیکھا جائے گا، سویلنز کا ٹرایل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت آتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 31D تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نماز سے دور رہنے حکم ہے لیکن نشے کی حالت میں، فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ کون سے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے؟

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں آئین معطل کرنے کی کیا سزا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے، آئین کا آرٹیکل 6 ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے، آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی، کیا غیرآئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام دیئے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیئے گئے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھی ملزمان کو حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا ہم فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟

جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگرضرورت ہوئی تو عدالت آپ سے ریکارڈ مانگ لے گی، سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہیں جس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنچ سربراہ سے معذرت کے ساتھ ملٹری کورٹس فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، ضابطہ فوجداری میں بھی لکھا توسب ہے لیکن قانون کے مطابق ٹرائل نہ ہونے پر ہی اپیل ہوتی ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ٹرائل روکے بھی سپریم کورٹ نے تھے، فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی مشروط اجازت بھی سپریم کورٹ نے ہی دی، دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ فوجی عدالت میں پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں، عدالت شواہد کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم کسی سے ذکر نہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جائزہ لینے کے اختیار کی حد تک آپ سے متفق ہوں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات میں اگست 2023 کو ترمیم کی گئی، موجودہ کیس میں واقعات مئی 2023 کو ہوئے، کیا بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی واقعات پر لاگو کیا جاسکتا ہے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے تحت کیا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ملزم وکیل بھی مقرر کرتا ہے سماعتیں بھی ہوتی ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیس میں فیصلہ سنانے اور فیصلہ محدود کرنے کے حوالے سے بتایا جا چکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو فیصلوں میں فئیر ٹرائل کا بھی ذکر موجود ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ گواہوں کی کلاس کیا رکھی گئی ہے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوائنٹ ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا یہی چیزیں آئیں گی، لکھا تو ہے لیکن عملی اصطلاح ہوئی ہے یا نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شروع دن سے یہ بات میرے ذہن میں پھنسی ہے عام آدمی آرمی ڈسپلن میں آتا ہے یا نہیں۔

بعدازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

Read Comments