سینئر صحافی، تجزیہ کار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے نام پر ’وقت پاس‘ کر رہے ہیں، دونوں جانب سے ٹرمپ کے امریکی صدر کا حلف اٹھانے کا انتظار کیا جارہا ہے۔
آج ٹی وی کے پروگرام ’روبرو‘ میں میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید چوہدری نے کہا کہ مذاکرات کا عمل طویل ہے، تاہم اس وقت ہر کوئی امریکا کی طرف دیکھ رہا ہے کہ نومنتخب صدر کی جانب سے کیا تاثر آتا ہے۔
واضح رہے کہ مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت کی جانب سے قائم کردہ مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان اب تک بات چیت کے 2 دور ہو چکے ہیں۔
تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت ”تمام سیاسی قیدیوں“ کی رہائی، 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کو ہونے والے احتجاج کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان رواں ماہ 2 جنوری کو ہونے والی آخری ملاقات کے بعد سے مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ تحریک انصاف نے عمران خان تک آزادانہ ماحول میں رسائی کی کوشش کی ہے جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ جیل کے ماحول میں ایسا کرنا نامکن ہوگا۔
فریقین کے مذاکرات کے بعد جیل میں ملاقات کے دوران ایک پیش رفت اس وقت ہوئی جب عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو حکومت کو تحریری مطالبات پیش کرنے کی اجازت دے دی۔
قبل ازیں پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان صاحبزادہ حامد رضا نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو تجویز پیش دی ہے کہ وہ حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور کل اتوار یا پیر کے روز منعقد کریں۔
تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے تحریری دستاویز میں مزید مطالبات ہوں گے، جن میں ”سیاسی قیدیوں“ کی فہرست اورعدالتی کمیشن کے لیے شرائط بھی شامل ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت وقت گزار رہی اور پی ٹی آئی کو کونے میں لے جا رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس فہرست میں عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے نام شامل ہوں، اس لسٹ کو لیک کیا جائے اور یہ بیانیہ بنایا جائے کہ پی ٹی آئی کو کارکنوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ممکنہ طور پر حکومت ان ججوں کے ساتھ کھیلنے کی بھی کوشش کرے گا جو پی ٹی آئی عدالتی کمیشن کے لیے دے گی۔
اینکر پرسن نے مزید کہا کہ حکومت یہ بھی چاہے گی کہ عمران خان کی جماعت ”چارٹر آف ڈیموکریسی“ اور احتجاج و معاشی ایجنڈے کی دستاویز پر دستخط کرے۔