اسلام آباد: سپریم کورٹ میں خصوصی عدالتوں کے کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ سماعت کر رہا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل دیئے۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ”جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے، وہ خود فیصلہ نہیں سناتا۔“
جسٹس مسرت ہلالی نے وضاحت کی کہ ”ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے، جو فیصلہ سناتا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں، وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا؟“
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے 34 سالہ تجربے کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے؟“
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ”ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔“
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ”آرمی ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے“ اور یہ بھی کہ ”خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کن مراحل سے گزرتا ہے، اس بارے میں آگاہ کردیتے۔“
جسٹس حسن اظہر رضوی نے وضاحت کی کہ ”خصوصی عدالتوں کا ٹرائل بھی عام عدالت جیسا ہی ہوتا ہے“ اور کہا کہ ”ملزم کیلئے وکیل کے ساتھ ایک افسر بطور دوست بھی مقرر کیا جاتا ہے۔“
معاملہ بنیادی حقوق اور آرٹیکل 10 اے کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے اس بات پر زور دیا۔