عالمی مالیاتی بحران نے بہت سے معاشی مسائل کو اجاگر کیا، جس کی وجہ معاشی ناانصافی ہے۔ روایتی بینکاری (کنونشنل بینکنگ) نظام قرض کی رقم پر منافع وصول کرکے پھلتا پھولتا ہے۔ تاہم اب دنیا کو سود کے نقصانات سمجھ میں آگئے ہیں۔ بڑے مالیاتی بحرانوں اور افراطِ زر کے بعد دنیا کا اسلامی مالیاتی آلات (IFI) کی جانب رجحان بڑھ گیا ہے۔ آئی ایف آئی معاشی انصاف کی یقین دہانی کراتا ہے، جو سماجی اور معاشی پہلوؤں میں توازن پیدا کرتا ہے، انفرادی اور اجتماعی مفادات کو ہم آہنگ کرتا ہے اور افراد، خاندانوں، معاشرے و ریاست کی ضروریات کو ایک جامع طریقے سے پورا کرتا ہے۔ اگرچہ یہ نظام ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم اسلامی بینکاری آنے والی دہائی میں تیزی سے پھلتی پھولتی نظر آرہی ہے، جس کا ثبوت درج ذیل اعداد و شمار ہیں۔
سال 2021 میں عالمی اسلامی مالیاتی (فنانس) مارکیٹوں کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 4.5 ٹریلین امریکی ڈالرز تھی، اور 2027 تک اسلامی اثاثوں کی مالیت 6.67 ٹریلین امریکی ڈالرز تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس وقت اسلامی مالیات 3.9 ٹریلین امریکی ڈالرز کی صنعت ہے، جو 85 سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کا بغور جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ صرف 10 ممالک دنیا کے 95 فیصد شریعہ کمپلائنٹ اثاثے رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران بالترتیب 25 اور 30 فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ اس کے بعد ملائیشیا 12 فیصد، متحدہ عرب امارات 10، کویت اور قطر 5،5، ترکی اور بحرین 3.5، انڈونیشیا اور پاکستان 2 فیصد شریعہ کمپلائنٹ اثاثوں کے مالک ہیں۔
مغربی دنیا میں لندن نے شریعہ کمپلائنٹ فنا نشل مرکز کے طور پر اپنی پہچان بنالی ہے۔ آج برطانیہ میں 20 سے زائد بینک اسلامی خدمات فراہم کررہے ہیں، ا ن میں سے 5 مکمل طور پر شریعہ کمپلائنٹ ہیں، جن میں الریان بینک بھی شامل ہے۔ الریان بینک اس وقت برطانیہ میں 85,000 سے زائد صارفین کو اسلامی مالیاتی مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔ دیگر یورپی ممالک نے بھی اس میدان میں نمایاں پیش رفت دکھائی ہے۔ لکسمبرگ پہلا یورپی ملک ہے جس نے ایک خودمختار سکوک جاری کیا ہے اور اب اس کے دائرہ کار میں تقریباً 30 شریعہ کمپلائنٹ فنڈز ہیں۔ جرمنی نے کئی سکوک جاری کیے ہیں اور 2015 میں اپنے پہلے مکمل اسلامی بینک کے وائی بینک اے جی کو لائسنس دیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی زیادہ ترتوجہ اسلامی انشورنس یا تکافل پر ہے۔
سکوک کا تعلق مالیاتی فراہم کنندہ کے حقیقی اثاثوں کی ملکیت سے ہے اور ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر منافع کمایا جاتا ہے۔ یہ روایتی بانڈز کے برعکس ہے، جس میں سرمایہ کار کے پاس قرض لینے کا موقع ہوتا ہے اور وہ بنیادی طور پر سود (رِبا) کی ادائیگی کے ذریعے منافع کماتا ہے۔ شریعت کے مطابق رِبا یا زیادتی کی اجازت نہیں ہے۔ چونکہ سکوک اثاثوں پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے اسے عالمی سطح پر تیزی سے پذیرائی مل رہی ہے۔
پاکستان میں اسلامی بینکاری کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور 22 اسلامی بینکاری ادارے (IBIs) کام کر رہے ہیں، جن میں میزان بینک، دبئی اسلامک، البرکہ اور بینک اسلامی جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔ فیصل بینک جیسے روایتی بینک بھی اسلامی مالیاتی ادارے میں تبدیل ہوکر دوسروں کے لیے مثال قائم کررہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے 2014 میں کیے گئے ایک KAP (Knowledge, Attitudes, and Practices) مطالعے میں 10,000 سے زائد گھرانوں کا سروے کیا گیا،جس میں یہ بات سامنے آئی کہ 74 فیصد جواب دہندگان اسلامی بینکاری کی طرف منتقلی کے لیے تیار تھے۔
اسلامی بینکاری کو روس میں ابتدا ہی سے غیرمتوقع پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یکم ستمبر سے شروع ہونے والے دو سالہ پائلٹ پروگرام کے لیے چار بڑے مسلم اکثریتی علاقوں چیچنیا، داغستان، تاتارستان اور بشکورتوستان میں اسلامی بینکاری متعارف کرانے کے قانون پر دستخط کردیے ہیں۔ کامیاب ہونے کی صورت میں اس ماڈل کو ملک بھر میں نافذ کیا جائے گا۔ یہ پیش رفت اسلامی بینکاری کی بڑھتی ہوئی عالمی قبولیت کو اجاگر کرتی ہے۔
روس کی ریاست ڈوما کی فنانشل مارکیٹ کمیٹی کے سربراہ اناتولی اکساکوف کے مطابق اسلامی بینکاری کے ذریعے مسلم ممالک کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں 11 سے 14 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے،جس سے ترکی، ایران اور دیگر ایشیائی ممالک سے سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیمی مشیر ڈاکٹر ڈیانا گیلیوا کا کہنا ہے کہ روس میں اسلامی بینکاری کے مرکز کے طورپر ترقی کرنے کا مستحکم اسٹریٹجک رجحان ہے، تاہم اس ممکنہ صلاحیت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت، مہارت، اور روس اور مسلم دنیا کے درمیان باہمی سمجھ بوجھ درکار ہوگی۔ وہ کہتی ہیں کہ اسلامی بینکاری کی وجہ سے پیدا ہونے والے متنوع مواقع وقت کے حساب سے موزوں ہو گئے ہیں۔
پاکستان میں بینکاری صنعت تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور مقامی بینکوں کے مقابلے میں غیر ملکی بینک زیادہ بڑی تعداد میں شریعہ کمپلائنٹ بینکاری کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں روایتی بینکوں کا اسلامی بینکوں کے زیر اثر آنا ایک مستقل رجحان ہے جو شاذ و نادر ہی کہیں اور دیکھا جاسکتا ہے۔ فیصل بینک کی تاریخ خاص طور پر قابل ذکر ہے، کیونکہ یہ دنیا میں سب سے بڑے روایتی بینک سے اسلامی بینک میں تبدیلی کی مثال ہے اور اس کی تیز رفتار ترقی آئی ایف آئی کی مقبولیت اور کامیابی کو ثابت کرتی ہے۔
آج پاکستان میں 22 مالیاتی ادارے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے اسلامی مالیاتی خدمات فراہم کرنے کا لائسنس رکھتے ہیں۔ ان میں 6 مکمل اسلامی بینک اور 16 روایتی بینک شامل ہیں جو اسلامی بینکاری ونڈوز کے ذریعے کام کر رہے ہیں، اور ان کی مختلف شہروں میں 5100 سے زائد شاخیں ہیں۔یہ حقیقت قابل غور ہے کہ روایتی بینکاری کو اپنی موجودہ سطح تک پہنچنے میں صدیوں لگے ہیں، لیکن اسلامی مالیاتی ادارے جلد ہی مساوی بنیادوں پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔