دفتر خارجہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینیل کے پاکستانی نیوکلئیر اثاثوں اور عمران خان کی رہائی سے متعلق تبصروں پر بات کرنے سے انکار کردیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ انفرادی حیثیت میں دیے گئے کسی کے بیان پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔
جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ افغانستان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی، تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھائیں۔
نامزد وزیرخارجہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے، رچرڈ گرینل
ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سفارت کاری کے لیے 2024ء ایک سرگرم سال تھا، بیلا روس، چین، آذر بائیجان، روس، سعودی عرب، ترکیہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھی انڈر اسٹینڈنگ بنی، وزیر خارجہ نے بیلجیم، مصر، ایران، سعودی عرب، برطانیہ اور دیگر ممالک کے دورے کیے، وزیر اعظم اور صدر نے بھی 2024 میں مخلتف ممالک کے دورے کیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں ملائشیا، روس، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے وفد پاکستان آئے، اس سال خطے اور دنیا بھر میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوئیں، تبدیلیوں کے باوجود باہمی مفادات کے پیش نظر مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے بنائے، امریکا کے ساتھ اپنے انگیجمنٹ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ہم یورپ میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں، یورپی یونین نے پی آئی اے سے پابندی ہٹائی ہے، پاکستان پی آئی اے پروازوں سے پابندی ہٹانے کے لیے یورپی یونین کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کررہا ہے۔
پکتیکا میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری پر کابل کا پاکستان سے احتجاج
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ سال 2024ء کا آغاز ملٹری حملوں سے ہوا، اپریل میں دونوں ممالک کے درمیان انگیجمنٹ ہوئی، افغانستان کے ساتھ بارڈر پر مسائل رہے، ہم افغانستان حکام کے ساتھ رابطے میں رہیں، چاہتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھائیں۔
رچرڈ گرینیل کے پاکستانی نیوکلئیر اثاثوں اور عمران خان کی رہائی سے متعلق تبصروں پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ انفرادی حیثیت میں دیے گئے کسی کے بیان پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ باہمی عزت اور مفادات کی بنیاد پر مثبت تعلقات کا خواہاں ہے، امید کرتے ہیں کہ امریکی بھی اس بات کا خیال رکھیں گے، ہم امریکی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے افغانستان میں فضائی حملوں کے بارے میں سوال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بارڈر آیریا میں آپریشن کا مقصد پاکستانی شہریوں کو ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں سے بچانا ہے،یہ آپریشن انٹیلیجنس بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ گزشتہ دنوں سے ہی رابطے میں ہے، نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان اس وقت کابل میں موجود ہیں، صادق خان نے افغان وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ، نائب وزیر اعظم اور دیگر لوگوں سے ملاقات کی ہے، ان ملاقاتوں میں سیکورٹی صورتحال، بارڈر مینجمنٹ اور تجارت پر بات چیت کی گئی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کی عزت کرتا ہے، ہم نے ہمیشہ بات چیت اور سفارتکاری پر توجہ دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیکیورٹی حکام بارڈر ایریاز پر پاکستانی عوام کو محفوظ بنانے کیلئے آپریشن کرتے ہیں، یہ آپریشن مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت مین پھنسے پاکستانی محمد فہد کی وطن واپسی کیلئے بھارت سے بات چیت ہو رہی ہے، پاکستان ہائی کمیشن دہلی کا بھارتی حکام سے رابطہ ہے۔