شام کی نئی عبوری قیادت نے باغی دھڑوں کو تحلیل کرکے انہیں وزارت دفاع کے تحت ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شام کے عبوری رہنما احمد الشارع اور باغی دھڑوں کے سربراہان نے منگل کو وزارت دفاع کے تحت گروپوں کو ضم کرنے پر اتفاق کیا۔
حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی جانب سے جاری بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ معاہدے میں کون سے گروپ شامل تھے۔ ایچ ٹی ایس کے ترجمان نے صرف اتنا کہا کہ ’کوئی دھڑا ایسا نہیں ہے جو متفق نہ ہو۔‘
اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا
اگر اس فیصلے پر عمل ہوجاتا ہے تو شام کو اس افراتفری سے بچایا سکتا ہے جس کا سامنا لیبیا سمیت خطے کی دیگر ریاستوں کو ہوا ہے، جہاں مسلح دھڑے آپس میں لڑ رہے ہیں۔
اس فیصلے سے گزشتہ ہفتے کیا گیا وہ وعدہ بھی پورا ہوگا جو ایچ ٹی ایس کے رہنما احمد الشارع نے کیا تھا۔
ایچ ٹی ایس کے ایک بیان کے مطابق، محمد الشارع نے اقلیتی دروز کمیونٹی کے اراکین کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران کہا، ’دھڑوں کو تحلیل کر دیا جائے گا اور جنگجو وزارت دفاع میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوں گے، اور ہر کوئی قانون کے تابع ہو گا۔‘
بحیرہ احمر پر امریکی طیارہ ہمارے حملے میں تباہ ہوا، حوثیوں کا دعویٰ
لیکن شام میں کم از کم دو بڑے مسلح گروہ، کرد زیر قیادت گروپ اور ترکی کی حمایت یافتہ باغی شامی نیشنل آرمی اب بھی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، اور ان کا کم از کم فوراً ہی جنگجوؤں یا ہتھیاروں کو ریاست کے حوالے کرنے کا امکان نہیں ہے۔
منگل کو کیا گیا اعلان الشارع کی جانب سے ریاستی اتھارٹی کی بحالی اور پراجیکٹ پر مشتمل گورننس کی تیز رفتار کوششوں کا حصہ تھا۔
ان کا گروپ امریکی محکمہ خارجہ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں برقرار ہے اور اس کے ماضی میں داعش اور القاعدہ سے تعلقات رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا حوثی اہلکاروں کیساتھ تعلقات کا انکشاف
بشار الاسد کا تختہ الٹنے سے پہلے، ایچ ٹی ایس نے بین الاقوامی جہاد کے بجائے مقامی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خود کو ایک اسلامی تحریک کے طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
الشارع نے حالیہ ہفتوں میں علاقائی اور مغربی ممالک کے سینئر وفود کی میزبانی کی ہے، کیونکہ وہ حکومت کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو تقویت دینے، بشار الاسد پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کو ہٹانے اور تقریباً 14 سال کی خانہ جنگی کے بعد شام کی تعمیر نو کے لیے امداد اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔