پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پاور شئیرنگ فارمولہ طے پا گیا، گورنر ہاؤس لاہور میں کوآرڈینیشن کمیٹیوں کے اجلاس میں خیر سگالی کمیٹی کے قیام کا اعلان اور معاہدے پر عملدرامد کے ٹی او آرز بھی طے کیے گئے جبکہ وفاق میں حکومت کی قیادت کرنے والی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعت کو پنجاب کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
تفصیلات کے مطابق گورنر ہاؤس لاہور میں ہونے والے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان 6 مہینوں سے زیر التوا اختلافی مسئلے پر صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی مداخلت کے بعد پنجاب میں شراکت اقتدار کی راہ ہموار ہوگئی۔
گورنر ہاؤس میں حکمران اتحاد میں شامل دونوں جماعتوں کی کوارڈینیشن کمیٹیوں کا لاہور میں ہونے والا اہم اجلاس 2 گھنٹے تک جاری رہا۔
معاملات طے، پنجاب میں پاور شیئرنگ پر بریک تھرو کا امکان؟
اجلاس میں پیپلزپارٹی کی جانب سے گورنرپنجاب سردار سلیم حیدرخان، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، سید حسن مرتضیٰ، سید مخدوم احمد محمود، ندیم افضل چن اور پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی شریک ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ، وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور مریم اورنگزیب شریک ہوئے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اجلاس کے آغاز میں ہی پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر اپنا دو ٹوک مؤقف واضح کردیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) اتحادی حکومت کے معاملات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی تو واضح کردے، ہم اپنا آئندہ کا لائحہ عمل خود طے کرلیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا کہ اجلاس میں مختلف امور پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، پیپلز پارٹی کے تحفظات کو دور کر کے ہم معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ رحیم یارخان اور ملتان کی ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کی سربراہی پیپلزپارٹی کو دی جائے گی۔
اس کے علاوہ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جیتنے والے حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی کو مساوی فنڈز دینے پر بھی اتفاق کیا گیا جبکہ ضلعی سطح پر مختلف کمیٹیوں میں پیپلز پارٹی کو نمائندگی دی جائے گی۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات دور کرنے کے لیے 9 دسمبر کو ہونے والا پہلا اجلاس بے نتیجہ رہا تھا اور اس حوالے سے کسی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔
اس ملاقات میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کے حوالے سے تحفظات اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے زیر انتظام پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے یکساں مواقع کی کمی کا جائزہ لیا گیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق پارٹی نے اہم پالیسی فیصلے کرتے وقت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اتحادی جماعتوں کو ساتھ نہ لینے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کا اجلاس آج ہوگا
پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ میں جلد بازی میں قانون سازی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو ہمار ا تعاون درکار ہے تو انہیں اتحادیوں کو اہمیت دینی ہوگی اور اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پنجاب کے علاقے چولستان میں دریائے سندھ پر 6 نہروں کی مجوزہ تعمیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے سندھ کی زمینیں مکمل طور پر بنجر ہوجائیں گی۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی توجہ اس منصوبے کے خلاف سندھ کے مختلف علاقوں میں جاری مظاہروں کی طرف مبذول کرائی تھی، پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دونوں فریقین نے سیاسی اور قانونی امور پر تبادلہ خیال کیا جس میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا متنازع مسئلہ بھی شامل ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) سے وضاحت طلب کی تھی کہ وہ چولستان نہروں کے لیے پانی کہاں سے حاصل کریں گے جب کہ انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ یہ منصوبہ ملک کو خشک سالی جیسی صورتحال کی طرف لے جاسکتا ہے۔
مزید برآں، ملاقات میں شامل خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے پارٹی کی نمائندگی کرنے والے رہنماؤں نے اپنے صوبوں میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت کے قیام کے بعد سے دونوں اہم اتحادی جماعتوں کے درمیان یہ پہلی واضح دراڑ ہے۔