حکومت کی جانب سے 500 اور 1000 والے نوٹوں کی فوری تبدیلی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد شہریوں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان حکومت معاشی صورتحال کو بہتر بنانے اور جعل سازی کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں مقامی کرنسی سے 500 اور 1000 پاؤنڈ کے نوٹوں کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سوڈان حکومت کے اس فیصلے سے منفی اثرات نے جنم لیا ہے جس سے بحران پیدا ہوگیا ہے اور سوڈانی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ 10 دسمبر کو نافذ ہوا، سوڈان کی مارکیٹیں تقریباً مکمل طور پر مفلوج ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کئی شہروں میں بینکوں میں لمبی قطاریں لگ چکی ہیں شہری لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنی رقم کی منتقلی کی کوشش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ رقم منتقل نہ کی تو وہ بیکار ہوجائے گی۔
نئے کرنسی نوٹ ڈیزائن کی دوڑ میں خواتین بازی لے گئیں
نہ صرف فنڈز تک رسائی مشکل تھی بلکہ بازاروں میں نقد رقم کی عدم دستیابی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوگئی کیونکہ بہت سے تاجر اور شہری پرانے نوٹ قبول کرنے سے گریز کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بہت سی دکانوں، فارمیسیوں اور گیس اسٹیشنوں نے ان پرانے کرنسی نوٹوں کے لین دین سے انکار کر دیا، جس نے شہریوں کے لیے روزمرہ کی زندگی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
مؤثر نگرانی کی عدم موجودگی میں بلیک مارکیٹ ان شہریوں کے لیے ایک متبادل حل کے طور پر ابھری ہے جو خود کو بحران کے جبڑوں میں پھنسے ہوئے دیکھتے ہیں۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ پرانے نوٹوں کی تجارت غیر معمولی انداز میں بحال ہوئی ہے، جس میں پرانی کرنسی کے 10 لاکھ پاؤنڈ نئی کرنسی کے 700,000 میں فروخت ہو رہے ہیں جو کہ ملک میں استحصال اور معاشی افراتفری کی حد کو ظاہر کرتا ہے۔
جہاں تک بینکنگ ٹرانزیکشنز کا تعلق ہے الیکٹرانک ایپلی کیشنز کے ذریعے ٹرانسفرز پر لگائی جانے والی فیس دگنی ہو کر 40 فیصد تک ہو گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ شہری کوئی بھی مالیاتی منتقلی کرتے وقت فیس کی ادائیگی کے پابند ہوں گے۔
یوٹیوب سے دیکھ کر ’حقیقی‘ جعلی کرنسی نوٹ چھاپنے والے گرفتار
العربیہ کے مطابق اس معاشی افراتفری نے سوڈان کے شہریوں میں بے چینی بڑھا دی ہے جو بروقت نئی کرنسی کے لیے پرانے کرنسی نوٹون کا تبادلہ کرنے سے قاصر ہونے کے بعد اپنی بچت کھو جانے کے خدشے سے دوچار ہیں۔
پورٹ سوڈان میں ایک خاتون شہری نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ “ہم خوف کے عالم میں جی رہے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری جیبوں میں موجود رقم کی قدر ہوگی یا یہ اچانک ختم ہو جائے گی۔
لاکھوں کے جعلی نوٹ پائے جانے پر نیشنل بینک کی برانچ سیل
پرانے کرنسی نوٹوں سے نمٹنے سے انکار کرنے والی دکانیں، گیس اسٹیشنوں کے علاوہ جو ادائیگی کے لیے سخت شرائط عائد کرتی ہیں، بہت سے شہریوں کو حکومت پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے کا باعث بنا۔
اس حوالے سے اقتصادی امور کے ماہر عبدالعظیم المہل کا کہنا تھا کہ اپریل 2023 کے وسط میں جنگ کی ابتدائ کے بعد سے ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ پانچ سو اور ایک ہزار پاؤنڈ کی کرنسی نوٹ آپ خرید نہیں سکتے۔ ان کے پاس نہ تو ایک ڈالر ہے، نہ سونا۔ یہ ایک نازک مرحلہ ہے۔ اس کا انتظام ایک شخص نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لیے ماہرین کی وزارت خزانہ کے لیے ایک کونسل کی تشکیل کی ضرورت ہے جو جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بچنے کے لیے طویل مدتی منصوبے تیار کرنے کے قابل ہو۔