اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر افسر کو گریڈ 20 سے 21 میں ترقی نا دینے کا سنٹرل سلیکشن بورڈ کا فیصلہ کاالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے لکھا ہمارے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ قابل وزیر اعظم لاپرواہی سے ایسا کیسے ہونے دے سکتے ہیں؟ وہ اپنی بیوروکریسی کو ثبوت کے بغیر ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم اپنی بیوروکریسی سے حکومت کی خدمت کی توقع کیسے رکھتے ہیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے پٹیشنر محمد طاہر حسن کی درخواست منظور کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں پٹیشنر کو سپر سیڈ کر کے کم مارکس والے افسر کو پروموٹ کرنے کا سنٹرل سلیکشن بورڈ کا یکم اگست 2023 کا فیصلہ کاالعدم قرار دیتے ہوئے سنٹرل سلیکشن بورڈ کو آئندہ میٹنگ میں سول سرونٹس پروموشن رولز کے تحت محمد طاہر حسن کی ترقی کو زیر غور لانے کی ہدائت کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ ایسی انٹیلی جنس رپورٹ کی پرواہ نا کرے جس میں افسر کو محکمانہ سطح پر اپنے دفاع کا موقع نا ملا ہو۔
عدالت نے لکھا پٹیشنر کے مطابق 1994 سے 2022 تک شاندار کیریئر رہا اور ان کے سیکرٹری نے پروموشن کی سفارش کی۔ انٹیلی جنس رپورٹس میں پٹیشنر کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا اسی بنیاد پر کم مارکس والے کو پروموشن کے لیے پٹیشنر پر ترجیح دی گئی۔
اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ پٹیشنر کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹس پہلی مرتبہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کے سامنے لائی گئیں۔
آئی ایس آئی کی رپورٹ میں پٹیشنر کو کرپٹ اور دباؤ میں کام کرنے کے لیے ناموزوں قرار دیا گیا۔ آئی بی نے اپنی رپورٹ میں پٹیشنر کی مالی بدعنوانیوں اور محکمانہ انکوائری کا ذکر کیا۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ انٹیلی جنس رپورٹس میں ثبوت فراہم کر کے اس کے مصدقہ ہونے کے بجائے reportedly کا لفظ لکھا گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کو کس طرح اکٹھا کیا گیا تھا؟ کس طرح ایسے شواہد کا پتہ چلا جو درخواست گزار کے شاندار سروس ریکارڈ اور ساکھ سے متصادم تھے؟ کسی انٹیلی جنس افسر نے دفتر میں بیٹھ کر بے ترتیب فون کالز کر کے یا یا انٹیلی جنس کے مستعد کام کے ذریعے جمع کیا۔
عدالت نے لکھا کسی الزام پر دفاع کا موقع نا دینا بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے