خیبرپختونخوا کے علاقے کُرم میں پرتشدد واقعات کے بعد کئی روز سے مرکزی شاہرائیں بند ہونے کی وجہ سے ادویات سمیت دیگر ضروری اشیا کی قلت سے مجموعی طور پر 30 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر سے اب تک کم از کم 130 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دونوں گروہوں کے لوگ حملے کے خوف سے گھروں میں ہی رہے ہیں۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ضلع میں زمینی راستے صرف اس وقت کھولے گی جب دونوں اطراف کے مسلح گروپ اپنے بھاری ہتھیاروں کو حوالے کر دیں گے۔
ضلع کُرم کے صدر مقام پاراچنار کے مرکزی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سید میر حسن نے بتایا کہ ادویات کی قلت کے نتیجے میں کم از کم 30 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بڑھتے ہوئے انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔ پاراچنار سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ احباب علی نے کہا کہ ہمارے پاس خوراک، ادویات، دودھ اور ایندھن کی قلت ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ لوگ جلد ہی تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اس بحران پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہیں۔
کُرم تنازع کا پُرامن حل کیسے نکالا جائے؟ پختونخوا کابینہ نے سرجوڑ لیے