اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ملک کے تمام صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے اسپیکرز کی کانفرنس میں شرکا نے قومی و پارلیمانی امور، جمہوری اقدار کے فروغ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ کانفرنس کے دوران ہر صوبے کے اسپیکر نے اپنے علاقے کے مخصوص مسائل اور قومی ترقی کے لیے تجاویز پیش کیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دو روزہ 18ویں اسپیکرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور جمہوریت کا تسلسل ہی ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا، آئین میں ترمیم ہوتی رہیں، 17ویں ترمیم بہت اہمیت کی حامل تھی لیکن 18ویں ترمیم میں اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے، صوبوں کو اختیارات کی منتقلی میں مرکز نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے وقت یہ احتیاط کی گئی، خاص طور پر جو فوجداری قوانین میں فیڈریشن کو رکھا گیا تاکہ پورے ملک میں ایک جیسے قوانین ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح آرٹیکل 144 میں یہ اختیار دیا گیا کہ صوبہ ایک قرارداد کے زریعے مرکز کو اجازت دے سکتا ہے کہ وہ کسی موضوع پر قانون سازی کرلیں لیکن یہ صوبے کا اختیار ہوگا کہ وہ بعد میں اس قانون میں ترمیم کرے یا اسے ختم کرے۔
وزیر قانون نے کہا کہ میثاق جمہوریت نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور جمہوریت کا تسلسل ہی ملک کی ترقی کا ضامن ہے، جمہوری نظام کا مقصد ہمیں جن لوگوں نے اسمبلیوں میں بھیجا یا جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں، ان کا فائدہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں عوام کے حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، حکومت نے طے کرنا ہے کہ نظام کیسے چلانا ہے۔
اس سے قبل، قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اٹھارویں اسپیکرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی اسپیکرز کا کام سب سے مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو وقت زیادہ ملے تو اپوزیشن ناراض ہوجاتی ہے اور اگر اپوزیشن کو وقت زیادہ دیا جائے تو حکومت ناراض ہو جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پروڈکشن آرڈرز کا مسئلہ بھی بہت اہم ہوتا ہے، ایک بات طے ہے کہ اگر پہلے کچھ غلط ہوگیا تو اب اسے درست کیا جائے گا۔
آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے اسپیکر چوہدری مجید اکبر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں 18ویں اسپیکرز کانفرنس سے خطاب کررہا ہوں، اس کا کریڈٹ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے، تجاویز کے تبادلے، پارلیمانی روایات اور اسمبلی میں پیش ہونے والے امور کا حل اسی فورم سے ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مسائل کا مناسب حل مشاورت سے ہی ممکن ہے، مقننہ نے ماضی میں بھی درپیش مسائل کے حل کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔
انہوں نے دعوت دی کہ آئندہ اسپیکرز کانفرنس مظفر آباد میں منعقد کی جائے۔
چوہدری مجید اکبر نے کشمیری عوام کے جرات اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیوں کے بعد عالمی برادری سمجھ رہی ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کا نہیں بلکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے،جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے تحریک آزادی رکنے والی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقو ق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی برداری کے لئے لمحہ فکر ہونا چاہیے تھا لیکن وہ خاموش ہے۔
بلوچستان اسمبلی کےا سپیکر کیپٹن (ر)عبدالخالق اچکزئی نے کہا کہ ہم سب کو اس چیز پر نظر رکھنی چاہیے کہ ملک کے اندر کیا ہورہا ہے اور مسائل کا حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے اندر کچھ لوگوں کی طرف سے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں لیکن وہاں کے سکیورٹی ادارے اس بات پر متفق ہیں صوبے کو آگے لے کر جانا ہے، اس حوالے سے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔
عبدالخالق اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کی سرحد ایک طرف افغانستان تو دوسری طرف ایران کے ساتھ لگتی ہے، ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہترکرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا، کامیابی کے لئے یہ ناگزیر ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر نذیر احمد نے کہا کہ اس کانفرنس سے پاکستان میں پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی اور اکائیوں کا وفاق پر اعتماد بڑھے گا اس کے علاوہ پارلیمانی پریکٹس، رولز، قانون سازی، پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کا سیاسی اور جمہوری سفر بالکل مختلف ہے، 2002 میں گلگت بلتستان میں اسمبلی قائم ہوئی، ہمیں باقی ملک کو ملنے والے حقوق تاخیر سے ملنا شروع ہوئے، تمام صوبوں کی آئینی فورمز پر نمائندگی ہے لیکن آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں، اس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوری نظام ہے سب کو مل کر چلنا چا ہیے، اگر ہم اب بھی ترقی نہ کرسکے تو پھر کب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں بلکہ عوام کو اصل طاقت ملتی ہے، اختلافات اور لڑائی جھگڑوں سے نکل کر ہم نے اپنی جمہوری اقدار کو بچانا ہے۔
اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر خان سواتی نے کہا کہ وہ تمام جمہوری قوتیں قابل تحسین ہیں جنہوں نے مشکلات کے باوجود حوصلے نہیں چھوڑے، ملک کی ایسی کوئی سیاسی پارٹی نہیں جس کی قیادت کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو یا جیلوں میں نہ گئی ہو اس کے باوجود ہم سب اکٹھے بیٹھے ہیں، یہ جمہوریت کی مضبوطی کی واضح مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی قوتیں اور سیاسی ورکرز ہمیشہ سے آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، اب ہمیں عمل درآمد کی طرف جانا ہوگا اور جو چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں انھیں بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اس اسپیکرز کانفرنس کا مقصد آئینی طریقہ کار، قانون سازی کو بہتر کرنا ہے، ہماری کوشش ہونی جاہیے کہ اس کانفرنس کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے، 10 سال کانفرنس کا نہ ہونا اچھا پیغام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس فورم میں ہمیں قانون سازی،رولز، وزارتوں اور محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے، 18ویں ترمیم کے بعد وزارتیں اور محکمے صوبوں کے پاس جانے کے بعد کی پیچیدگیوں کے حل کے لئے ٹھوس پالیسز پر بات کرنی ہوگی۔
انہوں نے تجویز دی کہ مشترکہ مفادات کونسل کی طرح اسپیکرز کانفرنس کو بھی مستقل حیثیت دی جائے۔
اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ صرف بڑی عمارت نہیں بلکہ اس کے اندر بیٹھے ہوئے قانون ساز پارلیمان کی اصل حقیقت ہیں، اپنے قانون سازوں کو بہتر ٹیکنالوجیز سے روشناس کرائیں، وہ سیمینارز اور کراس باڈر تعاون کے ساتھ ساتھ دنیا کو باہر جاکر دیکھیں کہ ان کی قانون سازی کی نوعیت اور ان کا مستقبل کا پلان کیا ہے، ہر چیز کا حل پارلیمنٹ کے اندر ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پارٹی چیئرمین نے مجھے اسپیکر آفس سنبھالنے سے قبل تلقین کی کہ سب کو سننا ہے اور ہر نظریے کی عزت کرنی ہے، اسپیکر آفس غیر جانبدار اور ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا پابند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری ضرورت نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے، 2008 میں جمہوریت بحال ہوئی اور آج 2024 ہے، آج 2008 میں پیدا ہونے والا بچہ 17 سال کا ہوچکا ہے، کیا اس بچے کو ہم نے درست سمت، مثبت سوچ اور آگے بڑھنے کی مواقع فراہم کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن نے ہمارے نوجوانوں کو ڈی ریل کیا، یہ وقت ہے کہ تمام قانون ساز ادارے اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کا حل پیش کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سندھ اسمبلی کو پیپر لیس کرنے اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے قانون سازی کو موثر بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔