کرک کے علاقے تختِ نصرتی کے پہاڑوں میں آج بھی لوگ غار نما گھروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں
اکیسویں صدی میں جہاں دنیا ترقی کی دوڑ میں گم ہے اور لوگ عالیشان محل نما گھروں میں رہتے ہیں، وہیں کرک کے علاقے تختِ نصرتی کے ایک قوم آج بھی پہاڑوں کے دامن میں غار نما حجرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ حجرے جہاں غربت کی تصویر پیش کرتے ہیں، وہیں کرک کی تاریخ اور ثقافت کا ایک منفرد حصہ بھی ہیں۔ یہ قدیم طرز کے حجرے نہ صرف کرک کی تہذیب کا خوبصورت عکس ہیں بلکہ یہاں کے مقامی رہائشیوں کی کہانی بھی سناتے ہیں۔
شین غر پہاڑی سلسلے میں بسنے والی یہ قوم کرک کے دیگرعلاقوں کے باسیوں کے مقابلے میں زیادہ غریب اور کم تعلیم یافتہ ہیں، ان کا طرزِ زندگی اورمعیشت بھی منفرد ہے، ان پہاڑی لوگوں کا ذریعہ معاش کان کنی، گلہ بانی اور پہاڑوں سے لکڑی کاٹنے پر مشتمل ہے۔
پہاڑوں میں رہائش کے لیے کسی ماہر آرکیٹیکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، یہاں لوگ اپنی محنت سے، کلہاڑیوں اور ہتھوڑوں کی مدد سے چٹانوں کو تراش کر اپنے گھر بناتے ہیں۔
یہ گھر بہت کم خرچ میں بنائے جاتے ہیں اور طویل عرصے تک مرمت کی ضرورت کے بغیر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان کمروں کو صرف رہائش کے لیے ہی نہیں بلکہ مساجد، حجروں اور دکانوں کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
دنیا جہاں اکیسویں صدی کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہے، وہیں کرک کے ان پہاڑوں میں بسنے والی یہ قوم اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے، حکومت کی جانب سے ترقی کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہونے پر یہ لوگ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں۔