Aaj Logo

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2024 06:34pm

برطانوی عدالت نے سارہ شریف قتل کیس میں والد، سوتیلی ماں کو سزائیں سنا دیں

برطانوی عدالت نے پاکستانی نژاد بچی سارہ شریف کے قتل کیس میں اس کے والد اور سوتیلی والدہ کو سزائیں سنا دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 10 سالہ سارہ شریف اگست 2023 میں اپنے بستر پر مردہ پائی، ان کا جسم جگہ جگہ سے کٹا ہوا تھا اور زخموں کے نشانات واضح تھے، ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور جلنے کے نشانات بھی پائے گئےتھے۔

پوسٹ مارٹم سے پتا چلا کہ سارہ کے جسم پر 100 سے زیادہ زخم تھے اور کم از کم 25 ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ان کے 43 سالہ والد عرفان شریف نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ان کی موت سے چند ہفتے قبل اسے کرکٹ کے بیٹ سے مارا تھا، اس نے اپنے ننگے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ دیا اور اس کی گردن کی ہڈی کو توڑ دیا۔

لندن کی عدالت میں سماعت جاری ہے۔ عدالت نے سارہ شریف کے والد اور تیلی ماں کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ عدالت نے سارہ کے چچا کو سارہ پر تشدد سے بچانے اور پولیس کو بروقت اطلاع نہ دینے پر 16 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

جج نے فیصلہ سنایا کہ عرفان شریف کو کم از کم 40 سال جبکہ بینش بتول کو کم از کم 33 سال قید کی سزا ہوگی۔ واضح رہے کہ برطانوی قانون کے مطابق مجرم کم از کم 40 اور 33 سال قید کی سزا بھگتیں گے جس کے بعد ان کی رہائی کا فیصلہ پے رول کمیٹی کرے گی۔

مجرموں کا ردعمل

عدالتی فیصلے کے وقت عرفان شریف خاموش رہا اور وہ زمین تو ہی تکتا رہا۔ عدالتی فیصلے کے بعد پبلک گیلری سے تالیوں کی آوازیں جبکہ جج اس دوران خاموش رہے۔

سارہ شریف قتل میں والد نے سارا الزام اپنے سر لے لیا، سوتیلی ماں کو بچانے کی کوشش

اس دوران بتول بیشن کا چہرہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ رونا چاہتی ہیں۔ سارہ شریف کے چچا نے عدالتی فصلہ سننے کے بعد اپنا سر جھکا لیا۔

دوران سماعت ججز کے ریمارکس

جسٹس جان کاوناگ نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’مقتول سارہ شریف کے کے بڑے بھائی یا اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کے خلاف تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ہے‘۔

جج نے سارہ شریف کے والد اور سوتیلی ماں کے مخاطب کرکے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دونوں نے سارہ کی بہت کم پرواہ کی کیونکہ سارہ بینش بتول کی حقیقی اولاد نہیں تھی۔

جسٹس کاواناگھ نے ریمارکس دیے کہ ’اس مقدمے میں ظلم کی حد تقریباً ناقابل فہم ہے، یہ سب گھر والوں کے سامنے ہوا‘۔

لندن: سارہ شریف قتل کیس کا فیصلہ آگیا، والد عرفان اور سوتیلی ماں مجرم قرار

جج نے ریمارکس دیے کہ ’سارہ اپنی موت کے وقت غذائی قلت کا شکار تھی اور ان کا وزن کم تھا، موت کی وجہ متعدد چوٹیں اور غفلت تھی، یہ چوٹ مجموعی طور پر سارہ کی موت کا سبب بنی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ سارہ کو موت سے پہلے کے دنوں میں سر پر چوٹ لگنے کے بعد سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

واضح رہے کہ پوسٹ مارٹم سے پتا چلا تھا کہ سارہ کے جسم پر 100 سے زیادہ زخم تھے اور کم از کم 25 ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

سارہ قتل کیس میں سوتیلی ماں اور چچا کا اپنے دفاع میں گواہی دینے سے انکار

ان کے 43 سالہ والد عرفان شریف نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ان کی موت سے چند ہفتے قبل اسے کرکٹ کے بیٹ سے مارا تھا، اس نے اپنے ننگے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ دیا اور اس کی گردن کی ہڈی کو توڑ دیا۔

عرفان شریف اور سارہ کی سوتیلی ماں 30 سالہ بینش بتول کو گزشتہ ہفتے لندن کے اولڈ بیلی میں 10 ہفتوں تک مقدمے کی سماعت کے بعد مجرم قرار دیا گیا تھا۔

بچی کے 29 سالہ چچا فیصل ملک کو ان کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا قصوروار پایا گیا تھا۔

سارہ کی زندگی کے آخری ایام میں ان پر ہونے والا تشدد بڑھتا چلا گیا۔ عرفان شریف نے عدالت میں اقرار کیا کہ انھوں نے کرکٹ بیٹ اور دھاتی ڈنڈے سے سارہ کو پیٹا تھا۔ تاہم سارہ کے جسم پر دانٹ سے کاٹنے کے نشان عرفان شریف کے دانتوں کے نمونوں سے نہیں ملے۔ عرفان نے سارہ کو استری سے جلانے کی بھی تردید کی۔ آخری ہفتوں میں سارہ کی ہڈیاں 25 بار ٹوٹیں لیکن ان کو ایک بار بھی ہسپتال نہیں لے جایا گیا۔

اگست میں فیونا، جو عرفان کے مکان کے عقب میں رہتی تھیں، ایک چیخ سنائی دی۔ چھ اگست کو سارہ کو گھر پر ٹی وی کے سامنے ڈانس کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں دیکھا گیا جس میں وہ بظاہر ٹھیک تھیں۔ اسی دن ان کی سوتیلی والدہ کے وکیل کے مطابق عرفان نے ان کو ایک بار پھر پیٹا۔

آٹھ اگست کو سارہ کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی۔ عرفان شریف نے فرض کر لیا کہ وہ ڈرامہ کر رہی ہے اور پھر سارہ کو دھاتی ڈنڈے سے دوبارہ پیٹا گیا۔ اسی رات دوسرے بچے، جس کا نام یو بتایا گیا، نے ایک دوست کو ٹیکسٹ میسج کیا: ’ہیلو، ارجنٹ، میری بہن مر گئی ہے۔‘

پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ ’سارہ کی موت ایک ایسی بچی کی زندگی کا اختتام تھا جس کے لیے تشدد ایک عام سی بات ہو چکی تھی۔‘

سوشل سروس 13 سال سے اس خاندان کے بارے میں واقف تھی۔ والد کو تین بار پرتشدد رویے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ سکول انتظامیہ نے بارہا خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا سارہ کو بچایا جا سکتا تھا۔

Read Comments