اسرائیل کی جانب سے گذشتہ روز شام کے ساحلی شہر طرطوس پر 8 گھنٹے سے زائد تک شدید بمباری کی گئی جس کے باعث پورا علاقہ لرز اٹھا۔ دھماکوں کے باعث کئی مقامات سے آگ کے بلند و بالا شعلے اٹھتے دکھائی دیے۔
العربیہ کے مطابق اسرائیل نے دس سے زائد حملے کیے جس کے مناظر کیمرے کی آنکھ نے قید کیے۔
حملوں کی شدت ہونے کے باعث بموں کا نشانہ بننے والے علاقے ریکٹر اسکیل پر 3.0 کی شدت کے بابر جھٹکوں سے لرز اٹھے۔
شام سے روسی خصوصی پرواز کی روانگی، طیارے میں کون تھا؟
شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ المرصد نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے جن اہداف کو نشانہ بنایا ان میں فضائی دفاع کے یونٹ اور زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں کے گودام شامل ہیں۔
المرصد نے 2012 کے بعد شام کے ساحلی علاقے میں گزشتہ روز ہونے والے دھماکے بہت کوفناک قرار دیے۔
ادھر طرطوس میں رہنے والے شامی فوج کے ایک افسر نے بتایا کہ یہ پہلا موقع تھا جب شہر کو اسرائیلی بم باری میں اتنے بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد حزب اللہ اپنا سپلائی روٹ کھو چکی، نعیم قاسم
افسر کے مطابق اسرائیل نے ایسے میزائل استعمال کیے جو شاید پہلی مرتبہ شام پر بم باری میں استعمال ہوئے کہ دھماکوں کی آوازیں دس کلو میٹر سے زیادہ دوری تک سنی گئیں۔
اس شدید بم باری کے سبب علاقے میں رہنے والے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج نے 48 گھنٹوں کے اندر شام میں 350 سے زیادہ حملے کیے تھے، جس میں ملک کے زیادہ تر اسٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخیروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کوشش کا مقصد ان ہتھیاروں کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے ملک کے خلاف اپنا دفاع یقینی بنائے گا جو اسے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل شام کو اب ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔
اسرائیل میں ایرانی جاسوسوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کا انکشاف
واضح رہے کہ آٹھ دسمبر کو سابق شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد سے اب تک اسرائیل نے شام کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد فضائی حملے کیے ہیں۔ ان کا مقصد شامی فوج اور مسلح فورسز کی صلاحیتوں کو ختم کرنا ہے۔