کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر پانی کی 84 انچ قطر کی لائن پر مرمتی کام کے باعث شہر میں پانی کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
واٹر کارپوریشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی روڈ پر پانی کی 84 انچ ڈایامیٹر کی مین لائن کا مرمتی کام پیر سے شروع کیا جائے گا۔
ترجمان کے مطابق مرمتی کام مجموعی طور پر 72 گھنٹوں تک جاری رہے گا، واٹر کارپوریشن انتظامیہ کی کوشش ہے کہ بدھ تک شہر میں پانی کی فراہمی بحال کی جائے۔
ترجمان نے بتایا کہ سی ای او واٹر کارپوریشن آج یونیورسٹی روڈ پر لائن کا معائنہ بھی کریں گے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ شہر کو یومیہ ٹوٹل 650 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے، مرمتی کام کے باعث شہر کو یومیہ 150 ایم جی ڈی پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جبکہ 500 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی معمول کے مطابق جاری رہے گی۔
دوسری جانب سی ای او واٹرکارپوریشن انجینئرصلاح الدین یونیورسٹی روڈ لائن کا دورہ کرنے پہنچ گئے، 84 انچ کی پانی کی متاثرہ لائن کا جائزہ لیا، انہوں نے وہاں موجود ٹیکنیکل ٹیم سے مرمتی کام کے حوالے سے بریفننگ لی۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کے ون سے شہریوں کو 210 ایم جی ڈی پانی چلتا ہے، بی آر ٹی کی انتظامیہ کو سارے نقشے فراہم کیے جا چکے تھے، ایس او پی کے تحت منصوبے کی انتظامیہ اور کنٹریکٹر کو کام کے دوران احتیاطی تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ میں واٹرکارپوریشن کی طرف سے واضح کرنا دینا چاہتا ہوں، یہاں ہم جہاں کھڑے ہیں یہاں سے210ملین گیلن کی3سائفن گزرتی ہیں، ریڈ لائن کےکنٹریکٹرنے27نومبرکو ہماری ایک سائفن کوپھاڑدیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر کسی ٹیکنیکل عملے کے کام کے دبائو کے سبب بھی پائپ لائن کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس وقت شہر کو ستر ایم جی ڈی پانی قلت کا سامنا ہے، ٹریک کے نیچے 1958 اور 1971 میں ڈالی گئیں لائنیں موجود ہیں ریڈ لائن منصوبے کی انتظامیہ پر 35 ملین کا ہرجانہ ادا کرنے کا کہا ہے۔
ایم ڈی واٹر سید صلاح الدین نے کہا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، نیپا اور دیگر سرکاری ہائیڈرنٹس سےشہریوں کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ 245سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار کیا جا چکا ہے، شہر میں اس وقت 5500واٹر ٹینکرچل رہے ہیں،3600سےزائد واٹر ٹینکر کورجسٹرڈ کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رجسٹرڈ واٹر ٹینکر کا تمام ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے، انہوں نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبے پر تمام اداروں کو مل کر ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔