بھارت کی کم ترقی یافتہ دفاعی ٹیکنالوجی نے اس کی بحریہ کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں پچھلی دہائی میں 15 بڑے حادثات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں 2014 کا آئی این ایس سندھوراتنا آتشزدگی کا واقعہ شامل ہے، جس میں دو افراد جان کی بازی ہار گئے۔
بھارت کی پہلی ایٹمی آبدوز، آئی این ایس اریہانت، ایک حادثے کے باعث 10 ماہ تک ناکارہ رہی، جس سے آلودگی کے خدشات پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ، آئی این ایس اری گھاٹ کی تعمیر میں تین سال کی تاخیر نے ملک کی تکنیکی صلاحیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
بھارتی بحریہ میں خریداری کے عمل میں کرپشن عام ہے، جیسے 2006 میں اسلحہ خریداری میں کک بیکس اور 2013 کے ٹارپیڈو معاہدے میں بے ضابطگیاں، جو بحری ساز و سامان کے معیار کو متاثر کرتی ہیں۔ ایٹمی ٹیکنالوجی میں ناقص مواد کے استعمال سے ماحولیاتی نقصانات بھی ہوئے ہیں، جس کے باعث زیر آب ایٹمی حادثات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے 140 ملین افراد کے باوجود، بھارت اپنی ایٹمی آبدوزوں پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے، جس سے سماجی اور ماحولیاتی ضروریات پر فوجی توسیع کو ترجیح دینے کے اخلاقی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔
ان خطرات کو کم کرنے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کو میری ٹائم سیفٹی اور ماحولیاتی تحفظ پر توجہ دینا ہوگی، جس کے لیے باقاعدہ آڈٹ اور احتساب کے نظام کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی جوہری تحفظ کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی اداروں جیسے انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (IMO) اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون بھی ناگزیر ہے۔