اسرائیل نے جنوبی لبنان سے اپنے فوجی واپس بلانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ یہ اعلان امریکا نے کیا ہے۔ ایک قصبے سے اسرائیلی فوجی نکل گئے تو لبنانی فوج نے کنٹرول سنبھال لیا۔
دوسری طرف امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے مشیر جیک سلیون کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت جنگ بندی شروع ہونے کے بعد اسرائیل کو ساٹھ دن کے اندر اپنی فوج کو جنوبی لبنان سے مکمل طور پر نکال لینا ہے۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والے جیک سلیون نے مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یرغمالیوں کو چھوڑنے کی ڈیل اور غزہ میں جنگ بندی کے بہت نزدیک ہے۔ معاملات کو نپٹانے اور تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لانے کا وقت ہوگیا ہے۔ مجھے احساس ہوچلا ہے کہ اب نیتن یاہو کسی معاہدے تک پہنچ چکے ہیں۔
اس پریس کانفرنس سے قبل جیک سلیون نے اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے گفت و شنید کی۔ اب بہت سوں کو یقین ہوچلا ہے کہ یہ ڈیل کامیاب ہوگی۔ جیک سلیون قطر مذاکرات کے کلیدی کردار رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے غیر معمولی تحرک کی بات کہی تھی۔
اسرائیل میں اور اسرائیل سے باہر نیتن یاہو کے بہت سے ناقدین نے اُن پر فلسطینیوں سے مذاکرات کی راہ مسدود کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی حماس پر یہی الزام عائد کرتا آیا ہے۔
جیک سلیون کا کہنا ہے کہ شام میں اپنے دوست یا حلیف بشارالاسد کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جانے کے بعد حماس نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
جیک سلیون کا کہنا تھا کہ شام میں حکومت کے خاتمے کے بعد لبنان میں جنگ بندی نے بھی ایک مختلف تناظر پیدا کیا ہے۔ حماس کے خلاف اسرائیلی فوج کی کامیابیوں نے یہ تناظر پروان چڑھایا ہے۔
جیک سلیوان نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے۔ یہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا کہ یحیٰ سِنوار، حسن نصراللہ یا خود ایران نے سوچا تھا۔ ہمیں اچانک مشرقِ وسطیٰ میں بڑی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ اسرائیل طاقتور ہوکر ابھرا ہے اور ایران کمزور پڑگیا ہے۔