خاتون سے دوستی کے بعد بلیک میلنگ کا ملزم اپنے درد ناک انجام تک پہنچ گیا۔
تفصیلات کے مطابق کومونکی کے گاؤں میں سیم کے نالے سے تیرتے ہوئے بیگ سے لاش ملی تھی۔ واقعے اطلاع فوراً مقامی تھانے کے اہلکاروں کو بذریعہ فون دی۔
اس پراسرار قتل کا مقدمہ سب انسپکٹر نعمت علی کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا اورسوشل میڈیا پر ڈال کر لواحقین کی تلاش شروع کی گئی۔
سوشل میڈیا پر تصویر پوسٹ کیے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایک شخص نے پولیس سے رابطہ کیا۔ فون کرنے والے نے اپنی شناخت قتل ہونے والے شخص ندیم سرور کے بھائی کے طور پر کروائی۔
مقتول کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ اُن کے بھائی وفاقی اسلام آباد میں بطور ویٹر عارضی ملازمت کرتے تھے۔
بھائی نے پولیس کو مزید آگاہ کیا کہ انھوں نے 10 نومبر کو اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں اپنے بھائی کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا تاہم لگ بھگ ایک ماہ گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس انھیں نہیں ڈھونڈ سکی تھی۔
پولیس کے مطابق بھائی کی گمشدگی کی اسلام آباد میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ ’ندیم سرور 9 نومبر کی شام پانچ بجے آرمی میس ہیڈکوارٹر سدھراں پر کام کے لیے گئے۔ وہاں سے انھوں نے ایک دن کی چھٹی لی 10 نومبر کو صبح 10 بجے تک اُن کا موبائل فون آن رہا۔ اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ندیم ساڑھے تین سال قبل ٹبہ محمد نگر کے قریب واقع نٹ بولٹ بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا، جہاں ان کا مذکورہ خاتون سے ملزم خاتون سے رابطہ قائم ہوا۔
اُن کے مطابق خاتون اوراُن کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ندیم کے پاس خاتون کی چند ویڈیوز تھیں جنھیں وہ ڈیلیٹ نہیں کر رہا تھا۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش اور پوچھ گچھ کے دوران خاتون اور اُن کے والد کی جانب سے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا اس سے قطع نظر کہ فون ریکارڈ کچھ اور ظاہر کر رہا تھا اور خاتون اور ندیم کے بیچ طویل گفتگو کا ریکارڈ موجود تھا۔
ندیم نے بتایا کہ رواں سال اپریل میں گھر والوں نے لڑکی کی شادی کی تھی جس کے بعد ندیم سرور اسلام آباد میں بطور ویٹر کام کرنے کے لیے کامونکی سے اسلام آباد چلے گئے۔
پولیس کے مطابق خاتون اور اُن کے والد کا دعویٰ ہے کہ ندیم خاتون سے ’رابطہ ختم نہیں کر رہے تھے اور ملاقات کے لیے مجبور کرتے تھے۔
ایس ایچ او نے مزید دعویٰ کیا کہ ’پولیس کو خاتون کے موبائل فون سے جو واٹس ایپ پیغامات کا ریکارڈ ملا، اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاتون کی طرف سے ملاقات کے بار بار انکار پرمقتول ندیم سرور بلیک میلنگ پر اُتر آیا تھا۔
انھوں نے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکی دی تھی، خاتون اُس کی منت سماجت کرتی رہیں کہ ایسا نہ کرنا، میرے سسرال والوں کو پہلے ہی مجھ پر شک ہے۔
دوسری طرف ندیم سرور کے بڑے بھائی نےملزمان کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مقتول پر ’نازیبا ویڈیو بنانے کا الزام بے بنیاد ہے۔‘
’جس شخص کے پاس بٹنوں والا فون ہو، وہ کیسے ویڈیو بنا سکتا ہے پولیس میرے بھائی کا موبائل فون برآمد کروائے۔‘
ندیم کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ غلطی کسی بھی انسان سے ہو سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کسی کو دو دن تک حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور پھر جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جائے۔
انھوں نے کہا ہے کہ پولیس ملزم پارٹی کی تمام باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی بجائے میرٹ پر تفتیش کرے اور جو ثبوت ہیں انھیں ہمارے سامنے لائے۔ ہمیں ایسی بات بتائی جا رہی ہے جسے ہمارا دماغ قبول کرنے کو تیار نہیں۔