خلا میں بھٹکتی ہوئی بہت سی چٹانیں (جنہیں اصلطلاحاً ایسٹیرائیڈز کہا جاتا ہے) زمین کے نزدیک سے بھی گزرتی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرینِ فلکیات اِن خلائی چٹانوں پر نطر رکھتے ہیں کیونکہ اِن میں سے بعض اِتنی بڑی ہیں کہ اگر زمین سے ٹکرا جائیں تو بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہو۔
ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں زمین کے لیے خطرہ بننے والی کسی بھی خلائی چٹان کو تباہ کرنے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج رات کم از کم 6 خلائی چٹانیں زمین سے قدرے کم فاصلے سے گزریں گی۔ ان میں سب سے بڑی خلائی چٹان کا نام 2007 EB23 ہے جو زمین سے کم و بیش ساڑھے چار لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گی۔
کیا زمین کو ایک نیا چاند ملنے والا ہے؟
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے سینٹر فار نیئر ارتھ آبجیکٹس اسٹڈیز کے مطابق دنیا بھر کی رصد گاہوں نے اِن خلائی چٹانوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ اگر اِن میں کوئی بھی بھٹکتی ہوئی زمین کی طرف آئی تو اُسے راستے ہی میں تباہ کردیا جائے گا۔
خطرہ ٹل گیا؟ ماہرین نے کہہ دیا 2029 میں خلائی چٹان زمین سے نہیں ٹکرائے گی
ماہرین انتہائی طاقتور دور بینوں کے لیس ہوکر اِن خلائی چٹانوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اِن کا بھرپور جائزہ لینے کا یہ سنہرا موقع ہے۔ اِن خلائی چٹانوں کا حجم 4.7 سے 48 میٹر تک ہے۔ 2024 XL11 نامی خلائی چٹان کم و بیش 10 میٹر کی ہے جو زمین سے 18 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گی۔
’شہر مٹانے والا‘ ایسٹرائیڈ زمین سے ٹکرانے والا ہے؟
ایک اور خلائی 2024 XZ11 تقریباً 17 سے 38 میٹر تک کے حجم کی ہے اور زمین سے 47 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گی۔ کم و بیش 21 تا 48 میٹر حجم کی خلائی چٹان 2018 XU3 کم و بیش 64 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرے گی۔
ماہرینِ فلکیات زمین کے تحفظ یقینی بنانے کی خاطر خلائی چٹانوں کی مستقل نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ کسی بڑی خلائی چٹان کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں غیر معمولی تباہی ہوسکتی ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال قبل زمین سے کئی خلائی چٹانیں ٹکراچکی ہیں۔ ایک بڑی خلائی چٹان روس کے علاقے سائبیریا سے بھی آ ٹکرائی تھی جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی واقع ہوئی تھی۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر سے ڈائنوسارز کا خاتمہ بھی زمین سے ایک بڑی خلائی چٹان کے ٹکرانے ہی سے ممکن ہوا تھا۔