پاکستان میں صحتِ عامہ کے شعبے کو بہت سے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک بڑا چیلنج اعلیٰ مہارت کے حامل معالجین کی کمی ہے۔ معیاری دوائیں تیار کرنا بھی انتہائی دشوار عمل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سند یافتہ اور مہارت کے حامل دواسازوں (pharmacists) کی قلت بھی صحتِ عامہ کے حوالے سے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔
سند یافتہ دواسازوں کی کمی کے باعث بازار میں غیر معیاری دواؤں کی بھرمار ہے۔ یہ دوائیں محض فروخت نہیں ہو رہیں بلکہ استعمال بھی کی جارہی ہیں۔ اس سے صحتِ عامہ پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پیناڈول ”سونے کے بھاؤ“ بکنے لگی
پاکستان فارماسیوٹیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین سید فاروق بخاری نے آج نیوز کے پروگرام آج پاکستان میں میزبان سِدرہ اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے غیر معیاری دواؤں کی بھرمار اور مطلوبہ قابلیت و مہارت کے حامل دواسازوں کی کمی پر روشنی ڈالی۔
فارما سیکٹر کی برآمدات 3 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن، حکومت کا تعاون بنیادی شرط
سید فاروق بخاری نے کہا کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر کا شعبہ کم و بیش 80 ہزار فارمیسیز (میڈیکل اسٹورز) پر مشتمل ہے۔ ان میں سے صرف 55 ہزار ہی باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ ہر سال ورک فورس میں ڈھائی ہزار دواسازوں کا اضافہ ہوتا ہے جن میں 55 فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ اِن میں سے 25 فیصد گھریلو مسائل کے باعث یا شادی کے بعد یہ کریئر ترک کردیتی ہیں۔
سید فاروق بخاری کہتے ہیں کہ بیشتر افراد فارمیسی کے شعبے میں انتہائی پُرکشش تنخواہوں اور مراعات کو دیکھتے ہوئے اس طرف آتے ہیں۔ اِن میں سے بہت سے بعد میں کسی اور طرف نکل جاتے ہیں۔ یوں فارمیسی کے شعبے معقول حد تک معیاری افرادی قوت نہیں مل پاتی۔ اس وقت فارمیسی میں باصلاحیت افراد کی کھپت کی گنجائش موجود ہے۔ غیر معمولی ذہانت اور ذوق و شوق کے حامل افراد اس طرف آکر ایک اچھا کریئر شروع کرسکتے ہیں۔
این آئی سی وی ڈی میں لاکھوں مالیت کی ادویات چوری کا انکشاف
اس وقت پاکستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ بیشتر فارمیسیز میں عام لوگ کام کر رہے ہیں جنہیں صرف دواؤں کے نام یاد ہوتے ہیں۔ وہ دواؤں کے بارے میں تکنیکی معلومات کے حامل نہیں ہوتے۔ وہ دوائیں تیار کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ اس کے نتیجے میں یہ غیر تربیت یافتہ لوگ دواؤں کی ہینڈلنگ اور اُنہیں بروئے کار لانے کے معاملے میں نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مریضوں کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
سید فاروق بخاری کا کہنا ہے کہ غیر تربیت یافتہ عام آدمی ڈاکٹرز کے لکھے ہوئے نسخے کو ڈھنگ سے پڑھ بھی نہیں پاتے، بالخصوص پیچیدہ کیمیکل تفصیل کو۔ معاملات کو اتائیوں نے مزید بگاڑا ہے جو ایسے نسخے لکھ مارتے ہیں جن کے لکھنے کا اُنہیں اختیار نہیں ہوتا۔ یہ اتائی (جعلی ڈاکٹر) ہیلتھ کیئر سسٹم میں افرادی قوت کی کمی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دواؤں کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے۔
فارما سیکٹر برآمدات کے لیے حکومت سے معاونت کا خواہاں
سند یافتہ دواسازوں اور معیاری دواؤں کی شدید قلت کے نتیجے میں انٹی بایوٹکس کا غلط استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اینٹی مایئکروبائل ریزسٹنس (AMR) بڑھا ہے۔ ایک بڑے مسئلے کا AMR تو بس ایک پہلو ہے مگر اِس کے سنگین اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اینٹی بایوٹکس کے غیر معیاری اور غلط استعمال سے ہر سال کم و بیش 7 لاکھ ہلاکتیں واقع ہو رہی ہیں۔
سید فاروق بخاری نے کہا کہ پروفیشنل مہارت اور نگرانی کے بغیر دواؤں کی فروخت اور استعمال سے صحتِ عامہ کو لاحق خطرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ فارمیسی کوئی ایسا کام نہیں کہ کوئی بھی کرلے۔ یہ خالص پیشہ ورانہ مہارت کا معاملہ ہے۔ اس کے چار سال تک ڈاکٹر آف فارمیسی کی باضابطہ تعلیم و تربیت لینا پڑتی ہے۔ سرٹیفکیشن کے بغیر اس شعبے میں قدم رکھنا صحتِ عامہ کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
سپریم کورٹ نے فارمیسی کونسل آف پاکستان کی اپیل مسترد کردی
پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ فارمیسی کے شعبے کو تج کر فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی طرف جانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دواؤں کی تیاری اور فراہمی کے مراحل میں غیر سند یافتہ افراد کو داخل ہونے سے روکا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ تمام فارمیسیز میں سند یافتہ پروفیشنلز تعینات ہوں۔۔۔۔۔۔۔