پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے بگن میں 22 نومبر کو مسلح افراد نے ایک معروف خاندان کے افراد کو اغوا کر لیا۔ یہ خاندان ڈاکٹر طلحہ محمد، ان کی اہلیہ، دو بیٹیاں اور دیگر رشتہ داروں پر مشتمل تھا۔ حملہ آوروں نے انہیں الگ الگ گاڑیوں میں بٹھایا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔
کرم میں نومبر کے آخر میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی کشیدگی اور پرتشدد واقعات میں 130 سے زائد افراد ہلاک اور 170 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ حکومتی کوششوں اور سیاسی جرگے کی مداخلت کے بعد علاقے میں جنگ بندی ممکن ہوئی۔
ڈاکٹر طلحہ محمد جو 30 سال سے کرم میں پریکٹس کر رہے ہیں، نے 2013 میں ریٹائرمنٹ سے قبل پاڑہ چنار اور علی زئی کے سرکاری ہسپتالوں میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کبھی بھی علاج میں فرقے کی بنیاد پر تفریق نہیں کی۔
ڈاکٹر طلحہ نے بگن میں اپنا کلینک قائم کیا اور ان کے 11 بچوں میں سے زیادہ تر نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی، اپنے والد کی خواہش کے مطابق کرم میں مریضوں کی مدد کرتے رہے۔
ڈاکٹر خاندان کا اغوا اور تلاش
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں کی جانب سے اغوا کی جانے والی ان کی بیٹی ڈاکٹر یاسمین نے ریڈیالوجی میں سپیشلائیزیشن کے ساتھ ساتھ گائنی میں ڈپلومہ کر رکھا ہے جبکہ ڈاکٹر شیلا کے پاس فزیوتھراپی میں مہارت تھی۔
جب مسلح حملہ آور بگن سے ڈاکٹر طلحہ کے خاندان کے افراد کو اغوا کر رہے تھے، تو ان کی اہلیہ اور بیٹی ڈاکٹر شیلا نے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ انہیں علی زئی میں حاجی عقیلو کے گھر پر چھوڑ دیں۔ اغوا کاروں نے ان کی درخواست قبول کی حاجی عقیلو کی رہائش گاہ پر پہنچا دیا۔ حاجی عقیلو علاقے کی ایک امن پسند شخصیت ہیں اور تمام طبقے کے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔
حاجی عقیلو نے اغوا کاروں پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طلحہ کا خاندان بلا تفریق ہر ایک کی مدد کرتا ہے، اور کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھنے والا مریض کا علاج مفت ہوتا ہے۔
علاقے میں خبر پھیلی تو حاجی عقیلو پرحوالگی کا دباؤ بڑھنے لگا
انہوں نے اغوا کاروں سے دیگر خاندان کے افراد کے بارے میں پوچھا۔ حاجی عقیلو کو شک ہوا کہ مزید افراد بھی اغوا کیے گئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ڈاکٹر شیلا اور ان کی والدہ کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لی۔
حاجی عقیلو نے ڈاکٹر شیلا اور ڈاکٹر طلحہ کی اہلیہ کی پناہ لینے کے بعد وعدہ کیا کہ وہ باقی خاندان کے افراد کا پتا لگائیں گے۔ جب علاقے میں یہ خبر پھیل گئی تو حاجی عقیلو پر دباؤ بڑھنے لگا کہ وہ دونوں کو اغوا کاروں کے حوالے کر دیں تاکہ انہیں تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
اغوا کار دیگر قبیلے کے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں اور اس بنیاد پر ان کا مذاکرات کے وقت پلڑا بھاری ہوتا ہے۔
حاجی عقیلو نے واضح طور پر کہا کہ اسلامی اور قبائلی روایات کے مطابق یہ دونوں ان کی پناہ میں ہیں اور وہ ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے اس دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر طلحہ اور دیگر کا پتا لگانے کا عمل شروع کیا۔
آخرکار انہیں ایک گاڑی کا سراغ ملا جس میں ڈاکٹر یاسمین کو منتقل کیا گیا تھا، اور گاڑی کے مالک سے پوچھنے پر انہیں معلوم ہوا کہ اغوا کاروں نے انہیں کہاں پہنچایا ہے۔
حاجی عقیلو کے پاس ان کے سوالوں کے جواب نہیں تھے
حاجی عقیلو نے ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن کے اغوا کاروں سے رابطہ کیا اور انہیں یاد دلایا کہ ڈاکٹر طلحہ لوگوں کا علاج کرتے ہیں، چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ۔ انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن کو ان کے حوالے کیا جائے، اور ساتھ ہی ڈاکٹر طلحہ اور ان کے بھانجے فیاض گل کی تلاش میں مدد کی درخواست کی۔
ابتدائی طور پر اغوا کاروں نے انکار کیا، مگر حاجی عقیلو نے حکومت سے بھی بات کی اور واضح کیا کہ مسیحا کے ساتھ ایسا سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آخرکار، فیصلہ ہوا کہ ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن کو حاجی عقیلو کے حوالے کر دیا جائے۔
جب انہیں تسلیم کیا گیا تو دونوں خواتین بہت خوف زدہ تھیں۔ ڈاکٹر یاسمین نے رو رو کر حاجی عقیلو سے پوچھا کہ ان کا کیا قصور تھا، حالانکہ انہوں نے ہمیشہ علی زئی کے لوگوں کی خدمت کی تھی۔
مگر حاجی عقیلو کے پاس ان کے سوالوں کے جواب نہیں تھے۔
ڈاکٹر طلحہ کا کچھ پتا نہ چل سکا
حاجی عقیلو نے ڈاکٹر طلحہ کی بیٹی سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے والد کو تلاش کریں گے، لیکن انہیں افسوس ہے کہ ابھی تک ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ سیز فائر کے بعد فیاض گل کی لاش واپس کر دی گئی ہے، مگر ڈاکٹر طلحہ کی گمشدگی کی معلومات متضاد ہیں۔
بگن حملے کے دوران، ڈاکٹر طلحہ کا کلینک اور گھر تباہ کر دیا گیا، جس میں ایک جدید فارمیسی بھی شامل تھی جو علاقے کی ضرورت پوری کرتی تھی۔ حاجی عقیلو نے تشویش ظاہر کی کہ اب لوگ علاج کے لیے کہاں جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سنی اور شیعہ دونوں طرف صرف چند فیصد انتہا پسند ہیں، جبکہ اکثریت امن اور بھائی چارہ چاہتی ہے۔