Aaj Logo

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2024 12:28pm

الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کیس: سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے پارلیمنٹ جائیں، جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے متعلق کیس میں متفرق درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے پارلیمنٹ جائیں۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں 2018 کے ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا گیا، پارلیمنٹ میں رپورٹ بھی جمع کرادی گئی ہے، معاملے کو پارلیمنٹ نے دیکھنا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد خان آپ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں اس معاملے کو اٹھائیں، سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے پارلیمنٹ جائیں، کیس ختم ہو چکا، پھر متفرق درخواست پر سماعت کیسے چلتی رہی؟ آج ہم درستی کرنا چاہتے ہیں۔

مظاہر علی اکبر نقوی کی شوکاز نوٹس کیخلاف درخواست خارج کردی

بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے متفرق درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا، جسٹس محمد علی مظہر

دوسری جانب فون ٹیپنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فون ٹیپنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون سازی ہوئی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 2013 سے قانون موجود ہے، قانون کے مطابق آئی ایس ائی اور آئی بی نوٹیفائیڈ ہیں، قانون میں فون ٹیپنگ کا طریقہ کار موجود ہے اور عدالتی نگرانی بھی قانون میں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کے لیے صرف جج اجازت دے سکتا ہے، کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں بلکہ نتائج چاہئیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جج کی نامزدگی بارے مجھے علم نہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے کا اثر بہت سے زیر التواء مقدمات پر بھی ہوگا، یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہوا چیف جسٹس کہاں جائے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔

ایڈووکیٹ آن ریکارڈ (اے او آر) نے کہا کہ اس مقدمے میں درخواست گزار میجر شبر سے رابطہ نہیں ہو رہا جبکہ میجر شبر کے وکیل بھی گزشتہ سال فوت ہو چکے ہیں۔

دلائل کے بعد آئینی بینچ نے کیس پر ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

Read Comments