میچز شیڈول ایک ساتھ آنے کے باعث پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اور انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) آمنے سامنے آ گئیں، اس سے کھلاڑی پریشانی کا شکار ہو گئے کہ وہ کہاں کہاں کھیلیں گے۔
بھارت کے مسلسل پاکستان کے ساتھ دو طرفہ کرکٹ میچز نہیں کھیلنے کا فیصلہ سیاسی قرار دیا جا رہا ہے، ایسے میں ان کا ایک ہی مقصد دکھائی دیا اور وہ ہے پی سی بی کو مالی طور پر نقصان پہنچانا، اور یہ مسائل 2007 سے چلے آ رہے تھے تاہم 2016 میں پاکستان نے سپر لیگ شروع کر کے نا صرف مالی بوجھ کو کم کیا بلکہ ثابت کر دکھایا کہ ان میں کتنی اہلیت ہے، اس دوران دنیا بھر کے سٹارز بھی پی ایس ایل میں کھیلتے نظر آئے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامی صلاحیتوں کی دنیا بھر نے تعریف کی۔
بنگلا دیش اور سری لنکا کی انٹرنیشنل لیگز میں غیر ملکی کھلاڑیوں نے معاوضوں کی ادائیگی تاخیر سے کرنے کی شکایت کی لیکن پاکستان سپر لیگ کے ابتدائی 9سالوں میں ایسی ایک بھی شکایت سامنے نہ آسکی۔
اس سال پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی وجہ سے پی ایس ایل اپریل میں ایسے و قت میں کرانے کا فیصلہ کیا ہے جب مالی اعتبار سے دنیا کی پرکشش انڈین پر یمیئر لیگ بھی شروع ہوچکی ہوگی، ایسے میں ظاہر یہ ہو رہا ہے ک پی ایس ایل اور آئی پی ایل آمنے سامنے آ گئے ہیں۔
بھارت میں پیسے کی کشش کی وجہ سے دنیا کے لاتعداد عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں نے معاہدے کر لیے ہیں اور چند بڑے ناموں کے علاوہ اکثر کھلاڑی اگلے سال 7اپریل سے شروع ہونے والی پی ایس ایل میں ایکشن میں دکھائی نہیں دیں گے، یہاں تک کہ افغانستان، سری لنکا اور بنگلا دیش کے بڑے کھلاڑی بھی پیسے کی چکا چوند کے سبب بھار ت کے ٹورنامنٹ میں شریک ہوں گے، پاکستان اور بھارت کی لیگز میں سب نمایاں فرق میڈیا رائٹس کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے۔
آئی پی ایل کے 2022 سے 2027 تک کے نشریاتی حقوق 6.2ارب ڈالر ( 17کھرب 24ارب پاکستانی روپے) میں فروخت ہوئے ہیں تاہم ارب پتی بھارتی تاجر ’ بڑے بزنس ہاؤسز اور بالی وڈ اسٹارز کی شراکت کی وجہ سےآئی پی ایل کی برانڈویلیو 10 اعشاریہ 7ارب ڈالر (29کھرب 75ارب پاکستانی روپے)تک پہنچ گئی ہے ۔
اس کے مقابلے میں پی ایس ایل کے میڈیا رائٹس بھی بلندیوں کی جانب گئے۔ پی ایس ایل نے 2024 اور 2025 کے لیے6.3 ارب روپے کے اپنے میڈیا رائٹس ڈیل کو فروخت کیاتاہم میڈیا رائٹس میں پیشرفت کے باوجود پی ایس ایل کی برانڈ ویلیوکا تخمینہ 33کروڑ ڈالر (91ارب 77کروڑ پاکستانی روپے )کے لگ بھگ ہے ۔
انڈین پریمیئر لیگ کا آغاز2008 میں ہوا تھا، دس سال بعد فرنچائز کو مالکان حقوق دے دیئے گئے جب کہ پی ایس ایل کی چھ ٹیموں کی کسٹوڈین پی سی بی ہے اور ریونیو شیئرنگ ماڈل میں اگلے سال دس سال مکمل ہونے کے اگر کوئی فرنچائز معاہدے کو جاری رکھنے سے انکار کرتی ہے تو پی سی بی کسی اور کو فرنچائز فروخت کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
فرنچائز مالکان کا دعویٰ ہے کہ نو سال بعد اب بھی انہیں لیگ سے زیادہ منافع نہیں ملتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے جب لیگ شروع ہوئی تھی اس وقت ایک ڈالر 106 روپے کا تھا آج ایک ڈالر275سے زائد میں فروخت ہورہا ہے۔
پی ایس ایل کی ایک فرنچائز سالانہ تقریباً پونے 9 کروڑپاکستانی روپے پی سی بی کو دیتی ہیں جبکہ پی ایس ایل کا سب سے مہنگا کھلاڑی پلاٹینیم کیٹیگری کا ہے جسے تقریباً سات ارب روپے ادائیگی کی جاتی ہے۔