شام میں انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کے مسلح دھڑوں نے بشارالاسد حکومت کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔ بشارالاسد نے روس میں پناہ لی ہے۔
شام میں صدارتی محل پر اپوزیشن اور عوام نے مل کر قبضہ کرلیا ہے۔ عوام صدارتی محل میں داخل ہوکر سیلفیاں لے رہے ہیں، گروپ فوٹو بنارہے ہیں۔ کوئی صدارتی محل کے باہر سیلفی لے رہا ہے تو کوئی صدارتی محل میں بشارالاسد کی کرسی پر براجمان ہے۔
روس میں شام کے سفارت خانے پر بھی شام کی اپوزیشن نے اپنا پرچم لہرادیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بشارالاسد اور اُن کی حکومت کا حصہ رہنے والوں کو ملک سے باہر بھی چھوڑا نہیں جائے گا، تعاقب جاری رکھا جائے گا۔
بشارالاسد کی حکمرانی روس اور ایران کی طرف سے ملنے والی حمایت اور مدد کی بدولت برقرار رہ پائی تھی۔ روس نے شام کی خانہ جنگی میں سرکاری فوج کا کھل کر ساتھ دیا۔ یہی معاملہ ایران کا بھی تھا۔ اب بشارالاسد نے بدلے ہوئے حالات میں اہلِ خانہ اور چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ ماسکو میں پناہ لی ہے۔
ماسکو میں بشارالاسد کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بشارالاسد کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ روسی صدر نے شام کے معزول ہم منصب کو پناہ دے کر دراصل اپنے دوستوں اور ہم خیال ممالک کو پیغام دیا ہے کہ روس کسی بھی مشکل گھڑی میں اُن کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
شام میں رونما ہونے والی غیر معمولی سیاسی اور اسٹریٹجک تبدیلیوں کے پیشِ نظر اسرائیلی فوج بھی متحرک ہوگئی ہے۔ گولان کی پہاڑیوں اور شام کے درمیان سرحد کے نزدیک اسرائیلی فوجی بڑی تعداد میں تعینات کیے جارہے ہیں۔
جو کچھ شام میں ہوا ہے اس پر عرب دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بشار انتظامیہ ایک زمانے سے جبر و استبداد کا استعارہ تھی۔ مخالفین کو کچلنے میں اُس کی جبر پسندی شاید ہی کسی اور ریجم نے دکھائی ہو۔
فلسطین کے ایک بڑے فنکار نے غزہ کے ساحل کی ریت پر آزاد شام لکھ کر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا۔ یزید ابو جُراد نے شام کے باشندوں سے بھرپور اظہارِ یکجہتی کے لیے ریت پر یہ خوبصورت شاہکار بنایا۔ اس شاہکار کو سوشل میڈیا پر خوب پسند کیا جارہا ہے۔
شام میں حکومتی فوج اور اپوزیشن کے دھڑوں میں لڑائی ختم کرانے کے لیے روس، ترکی اور دیگر ممالک پر مشتمل ’آستانہ پروسیس‘ کی کوششیں آخری دم تک جاری رہیں۔ 7 دسمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آستانہ پروسیس کے تحت حتمی نوعیت کی کوششیں کی گئیں۔ اس اجلاس میں روسی وزیرِخارجہ سرگئی لاروف اور ترک وزیرِخارجہ ہاکان فِدان بھی شریک ہوئے۔