Aaj Logo

شائع 09 دسمبر 2024 02:58pm

عدالت نے درخواست گزاروں کو ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بنیادی حق سے محروم کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ

ڈی چوک احتجاج کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے 41 ملزمان کو شناخت پریڈ پر بھیجنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے ریمارکس دئے ہیں کہ عدالت نے درخواست گزاروں کو ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بنیادی حق سے محروم کیا۔

ڈی چوک احتجاج کے بعد گرفتار کارکنوں کو 14 روزہ شناخت پریڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا کا آرڈر اسلام آباد ہائیکورٹ چیلنج کیا گیا۔

ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے ڈی چوک احتجاج کیس میں 41 ملزمان کو 14 روزہ شناخت پریڈ پر بھیجنے کے خلاف کیس میں دلائل سننے کے بعد فیصلہ جاری کیا۔

صحافیوں کو ہراساں کرنے کا کیس: آئینی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کردی

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر کے روبرو ملزمان کے وکلا صدر ہائیکورٹ بار ریاست علی آزاد اور انصر کیانی پیش ہوئے جب کہ اسٹیٹ کونسل اور پولیس حکام بھی عدالت میں موجود تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ملزمان کی کس نے شناخت پریڈ کی، جس پر وکیل نے بتایا کہ ایگزیکٹیو مجسٹریٹ نے کی اور لاہور ہائیکورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کیا گیا۔

عدالت کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ کیس کا شکایت کنندہ پولیس ہے، ایس ایچ او کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ کوئی گواہ نہیں، کوئی ثبوت بھی نہیں۔ جن گاڑیوں کے جلانے کا کہا جار ہا ہے، کوئی ایک پرزہ تک نہیں ہے۔

وکیل نے دلائل میں کہا کہ جب جس کو مرضی اٹھا کر لے جائیں، تمام لوگوں کواٹھا کر 10، 10 روز غائب رکھا گیا۔ مخبر کی اطلاع پر ملزمان اٹھائے گئے، مخبر اتنا لائق ہے کہ اس نے نام ولدیت تک بتا دیے، ایک وکیل صاحب کو گھر سے اٹھایا گیا، یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آئی جی کا بیان ہے کہ 900 افراد گرفتار کیے، اسلام آبادمیں اتنا خوف ہے کہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا، اے ٹی سی کے جج کے بنیادی احکامات ہی غیر قانونی ہیں تو کیس ہی ختم ہے۔

علی بخاری اور شیر افضل مروت کیخلاف مزید مقدمات سامنے آگئے

بعد ازاں عدالت نے 41 ملزمان کی شناخت پریڈ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا اور پھر شناخت پریڈ میں تاخیر اور عدالتی حکم میں وجوہات کا ذکر نہ کرنے پر اہم فیصلہ جاری کیا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو شناخت پریڈ پر جیل بھیجنے کے آرڈر میں وجوہات نہیں لکھیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ شناخت پریڈ کی کارروائی ایک یا دو دن میں مکمل ہوسکتی ہے، عدالت نے درخواست گزاروں کو ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ان کے بنیادی حق سے محروم کیا، ریاست کی زمہ داری تھی شناخت پریڈ جلد سے جلد یقینی بنائی جاتی، شناخت پریڈ میں ملزم کی شناخت نہیں ہوتی تو ناانصافی پر مبنی اس کی گرفتاری کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کی شناخت پریڈ مکمل ہوچکی ہے، ملزمان قانون میں دیا حق استعمال کر سکتے ہیں۔

ڈی چوک احتجاج میں لاپتہ 200 افراد کی فہرست تیار کرلی، بیرسٹر گوہر

عدالت نے کہا کہ یہ درخواست انسداد دہشت گردی عدالت کے متعلقہ حکمنامے کی حد تک ہے۔

Read Comments