سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف انٹرا اپیل روکنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل جبکہ سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئے کہ آپ کا کوئی پیارا زیرحراست نہیں اس لئے تاخیر چاہتے ہیں۔
عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا میں آئینی بینچ کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کے وکیل سے کہا پھر آپ کمرہ عدالت چھوڑ دیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا موجودہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نے نامزد کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی 14 دسمبر کی کال فیض حمید کے ٹرائل کو مد نظر رکھ کر دی گئی، واوڈا
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آئینی ترمیم کالعدم ہوئی تو اس کے تحت ہونے والے فیصلے بھی ختم ہوجائیں گے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیصلوں کو ہمیشہ تحفظ حاصل ہوتا ہے، ہر سماعت پر ایسی ہی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے تحت ہی کام کر رہی ہے، جو بھی بینچ بن رہے ہیں نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے ہیں، آئینی ترمیم کا مقدمہ بھی ترمیم کے تحت بننے والا بینچ ہی سنے گا۔
اس کے بعد عدالت نے حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی کو روسٹرم پر بلایا۔
سب قیاس آرائیاں ہیں، بھاگ کر نہیں جائیں گے، جسٹس منصورعلی کا استعفے کے سوال پر جواب
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا بیٹا جیل میں ہے کیا آپ مقدمہ چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ بالکل کیس چلانا چاہتا ہوں۔
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کا سوچیں، آپ کا تو اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا آپ کا کوئی پیارا زیرحراست نہیں اس لیے تاخیر چاہتے ہیں، سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے تحت ہی کام کر رہی ہے، جو بھی بینچ بن رہے ہیں نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے ہیں، آئینی ترمیم کا کیس بھی ترمیم کے تحت بننے والا بنچ ہی سنے گا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے سویلین کا خصوصی کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیز کے ملازمین پر بھی لاگو ہے، یا تو پھر یہ شقیں بھی کالعدم کردیں پھر کہیں سویلین کا وہاں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہ تو سویلین کی الگ قسم ہوتی ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتے ہیں۔
خواجہ حارث بولے، جی بالکل، آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا کیس مگر آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کور کمانڈرز جب اپنے گھر کو بطور دفتر استعمال کریں تو کیا اسے دفتر ڈیکلئیر کرتے ہیں؟ یہ بات کتنی درست ہے کہ یہ آئیڈیا بعد میں آیا کور کمانڈر کا گھر بھی دفتر تھا؟
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایسے کسی نوٹیفکیشن کی طرف نہیں جا رہا۔
جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں انسداد دہشتگردی عدالتوں نے ملزمان کی خصوصی کورٹس کو حوالگی کیسے دی؟ کیا اے ٹی سی کورٹس کا وجوہات پر مبنی کوئی آرڈر موجود ہے؟ آپ یہ سوال نوٹ کر لیں بیشک آخر میں اس کا جواب دیں۔
آئینی بینچ نے 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ بھی کر دیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کا مطلب فوجی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہو گا۔
آئینی بینچ نے حکومت کی فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔