پس ماندہ ممالک کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کی کشمکش ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور بیرونی قوتیں اس حوالے سے اپنا کھیل کُھل کر کھیلتی رہتی ہیں۔ ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کے ساتھ ساتھ جنوبی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کی یہی تو کہانی ہے۔
بڑی طاقتوں کے پٹھو حکمران صرف مسلم دنیا میں نہیں۔ کئی خطوں کو اِس طرح کے حکمرانوں نے برباد کیا ہے۔ بڑی طاقتیں دنیا بھر کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کو کمزور رکھنے کے لیے مختلف حربے بروئے کار لاتی ہیں۔
ایک بڑا حربہ ہے ایسے حکمرانوں کو لوگوں پر مسلط کرنا جو کٹھ پتلی کے طور پر کام کریں، کنگ بننے کے بعد کنگ میکرز کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے پر متوجہ رہیں اور اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ ناکامی اور ذلت کے گڑھے میں دھکیلتے رہیں۔
شام کا بھی یہ قصہ ہے۔ 1970 کی دہائی میں حافظ الاسد اقتدار سے ایسے چمٹے کے یہ اُن کے لیے گھر کی لونڈی جیسا ہوکر رہ گیا۔ حافظ الاسد اور اُن کے بیٹے کے لیے اقتدار گھر کی بات تھی۔ علوی یا علاوی فرقے سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹے نے مل کر شام پر دو چار سال نہیں، پورے 54 سال حکومت کی۔
حافظ الاسد نے 1970 میں اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھا اور پھر پلٹ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ 2000 میں اُن کے مرنے پر بشارالاسد نے صدر کا منصب سنبھالا۔
حافظ الاسد شام کی فضائیہ کے سربراہ اور وزیرِدفاع کی حیثیت سے جو مراسم اشرافیہ میں پروان چڑھائے تھے انہیں بخوبی استعمال کرکے شام کا اقتدار سنبھالا اور اُن کا کر و فر قابلِ دید تھا۔ وہ چونکہ ہر صورت اقتدار برقرار کھنے کا رجحان رکھتے تھے اس لیے اُن کے دور میں ایسا بہت کچھ ہوا جو عام طور پر پس ماندہ ملکوں کے ایوان ہائے اقتدار میں ہوا کرتا ہے۔
اقتدار پر گرفت زیادہ سے زیادہ مضبوط رکھنے کے لیے حافظ الاسد نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کے اصول پر کاربند رہنے کی ٹھانی اور شخصی آمریت کے تمام اطوار اپنائے۔ 2000 میں اپنی موت تک حافظ الاسد بلا شرکتِ غیرے شام کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔
بشارالاسد کے بھی اقتدار کانٹوں کی سیج ہی ثابت ہوا۔ انہوں نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے وہ تمام حربے اختیار کیے جو اُن کے والد نے بھی اختیار کیے تھے۔ ان کے دورِ صدارت میں مخالفین کو کچلنے پر بھرپور توجہ دی گئی اور اِس کے جو کچھ بھی کرنا تھا وہ کُھل کر کیا گیا۔
2011 میں جب عرب دنیا میں عوامی شعور کی لہر چلی تو شام میں بھی خانہ جنگی شروع ہوئی۔ اس خانہ جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اترے۔ شام کے کم و بیش 60 لاکھ باشندوں نے ترکِ وطن کیا۔
شام میں پُھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی بشارالاسد کے اقتدار کی بساط لپیٹ کر رکھ دیتی اگر روس اور ایران اُن کی مدد کو نہ آتے۔ ایک علاقائی اور ایک عالمی طاقت کی حمایت و تعاون ملنے پر بازی بشارالاسد کے حق میں پلٹ گئی۔ یوں اُن کے اقتدار کو مزید 12 سال مل گئے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جب بھی کسی پس ماندہ ملک کے حکمران کی سرپرستی سے علاقائی اور عالمی طاقتیں دست بردار ہو جاتی ہیں تب اقتدار کا برقرار رکھنا مشکل نہیں، ناممکن ہو ہو جاتا ہے۔ جب ایران اور روس نے ہاتھ اٹھالیا تو بشارالاسد کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔