آزاد کشمیر حکومت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان صدارتی آرڈیننس کے حوالے سے معاملات طے پاگئے ، جس کے بعد آزاد کشمیر حکومت نے جلسے جلوس اور ریلیوں پر پابندی سے متعلق صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا، جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد آزاد کشمیر حکومت نے متنازع صدارتی آرڈیننس واپس لینے کا اعلان کردیا۔
حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس واپس لینے سے متعلق نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں حکومت سے معاہدہ طے پانے کے بعد احتجاج ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا۔
ایکشن کمیٹی نے 4 روز سے جاری پہیہ جام شٹرڈاون ہڑتال اور داخلی راستوں پر احتجاجی دھرنے ختم کردیے، لانگ مارچ کے قافلے واپس لوٹ گئےاور بند دکانیں کاروباری مراکز کھل گئے جبکہ بین الاضلاعی اور پاکستان کے مختلف شہروں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ کا پہیہ بھی چل پڑا ۔
آزاد کشمیر حکومت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت حکومت نے 13 مطالبات پورے کر لیے ہیں۔
آزاد کشمیر حکومت نے آٹے اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی بحال رکھنے، بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے، طلباء یونین کی بحالی اور بجلی کے کمرشل ٹیرف میں تبدیلی سمیت چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کرنے پریقین دہانی کرائی ہے۔
یاد رہے کہ آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے حکومت آزاد کشمیر کو پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس فوری واپس لینے کی ہدایت کی تھی۔
صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے وزیرِ اعظم چوہدری انوار الحق کو اس حوالے سے خط بھی لکھا تھا، جس کے بعد حکومت آزاد کشمیر نے فوری طور پر کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آزاد کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی اور وزرا کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ شروع کردیا تھا۔
آزاد کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہے۔
یاد رہے کہ حکومت آزاد کشمیر نے ایک ماہ قبل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے احتجاجی جلسے، جلوس اور مظاہروں پر پابندی لگائی تھی، صدارتی آرڈیننس کی خلاف ورزی پر 7 سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، 3 دسمبر کو آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے حکومت کا متنازع صدارتی آرڈیننس معطل کردیا تھا۔
یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی احتجاج اور جلسے سے ایک ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اس آرڈیننس کو مرکزی بار ایسوسی ایشن مظفر آباد اور آزاد کشمیر بار کونسل کے 3 ارکان نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں درخواست دائر کردی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے پرامن احتجاج اور امن عامہ سے متعلق آرڈیننس 2024 کا نفاذ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 اپیلیں منظور کرلی تھیں، تاہم عوامی ایکشن کمیٹی نے آرڈیننس کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔