ماہرہ خان نے ذہنی صحت کے ساتھ اپنی جدوجہد کے بارے میں بات کی ہے، خاص طور پر ”تاریک“ اوقات جب وہ ڈپریشن سے لڑ رہی تھیں۔ اداکار نے افسردہ محسوس کرنے والے ہر فرد کو پیشہ ورانہ مدد لینے کی بھی اپیل کی۔
آمنہ حیدر عیسانی کے پوڈ کاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے ماہرہ خان نے کہا کہ دماغی صحت کے بارے میں سطحئی بات کرنا آسان ہے لیکن اس کی گہرائی میں جانا مشکل ہے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے جب بقول ان کے وہ ”واقعی، واقعی، واقعی افسردہ“ تھیں، سپر اسٹار نے کہا کہ وہ لوگوں کو یہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کی زندگی کتنی ناقابل یقین ہوگئی تھی۔
ماہرہ خان کی پاکستانی انفلوئنسرکے ساتھ دلچسپ اور مزاحیہ ویڈیو وائرل
”یہ عام سچویشن نہیں ہے جو آپ کسی سے کہتے ہیں بلکہ یہ ایک بیماری ہے۔ یہ ایک کیمیکل عدم توازن ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ اس کے محرکات نہیں ہیں، لیکن ڈپریشن اور دیگر تمام قسم کے ذہنی صحت کے مسائل سب بیماریاں ہیں۔ ماہرین نفسیات کے پاس اس کی دوائیں اور علاج موجود ہیں۔“ ماہرہ خان نے کہا۔
ماہرہ نے انکشاف کیا کہ جب ان کی حالت واقعی خراب تھی، ادویات نے ان کی سب سے زیادہ مدد کی، اس کے بعد سپورٹ سسٹم آیا جس میں انہوں نے خدا کو شامل کیا۔ اداکارہ نے کہا کہ وہ مسلسل اور ہمیشہ دعا کرنا پسند کریں گی کیونکہ اسی کی بدولت انکے تاریک دور میں ان کے بہترین دوستوں ، فیملی اور بیٹے نے انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔
”میرے خیال میں سپورٹ سسٹم بہت بہت بہت ہی زیادہ اہم ہے،“ انہوں نے کہا۔
ہمسفر اداکار نے اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ ڈپریشن جیسے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنا ضروری ہے جس پر بات کرنے میں شرم محسوس کی جاتی ہے۔
میرے پاس بہت سے لوگ آتے ہیں اور شکریہ کہتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں، ’تم نے کیا کیا، کس کے پاس گئے؟‘۔ میں نے مختلف معالجین اور سائیکاٹرسٹ کے پاس کئی لوگوں کو بھیجا ہے۔
ہمسرف فیم کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ذہنی صحت سے شرمندگی کو دور کرنا اور اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ اگر آپ تکلیف میں ہیں تو آپ کسی سے ملنے جائیں۔ آپ کو مدد ضرور لینی چاہیے کیونکہ یہاں مدد ہے اور یہاں اچھی مدد ہے۔
ماہرہ خان نے کہا کہ ایک فرد کے دوبارہ ٹریک پر آنے کے بعد، ان کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ان چیزوں کا ادراک کریں جنہوں نے انہیں متحرک کیا۔ جب میزبان کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے محرکات کی نشاندہی کر سکتی ہیں، خان نے کہا کہ وہ کر سکتی ہیں۔
انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ 40 کی دہائی کو چھونے کے بعد بشریٰ انصاری اور عتیقہ اوڈھو کی طرح اپنی مادرانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے بعد بھی ترقی کی منازل طے کرنے، اپنی دیکھ بھال کرنے پر توجہ دیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سلیم کریم سے شادی کے بعد انہوں نے زیادہ سفر کیا۔ وہ شادی سے پہلے وہ صرف اپنے بیٹے اذلان کے ساتھ چھٹیاں گزارتی تھیں اور کبھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ چھٹی کیسے کی جائے۔
ماہرہ خان نے اپنے دوستوں کے ساتھ بہت سفر کیا اور آخر کار انہیں وقفے کی اہمیت سمجھ آئی۔ انہوں نے خواتین پر بھی زور دیا کہ وہ ہر اس چیز میں حصہ لیں جس سے انہیں خوشی ملتی ہے، چاہے وہ باغبانی، کھانا پکانا، ڈرامے دیکھنا ہو۔
انہون نے کہا کہ مجھے کام کرنے سے بے پناہ خوشی ملتی ہے، یہ مجھے صحت مند اور خوش رکھتا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو میں خواتین کو بھی کہوں گی، چاہے کچھ بھی ہو، جو بھی آپ کو خوشی دیتا ہے، اسے کریں۔
مجھے اکیلے کھانا پسند ہے کیونکہ یہ میرے لیے خوشی ہے، کھانا اوراپنی پسند کا شو دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے میں اسے پسند کرتی ہوں۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ جو بھی چیز آپ کو طمانیت اور سکون دیتی ہے، اسے ضرور کریں اس کی کوئی عمر نہیں ہے۔ انہوں نے یقین دلایا۔