پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے زیرسماعت الیکشن ایکٹ ترمیم کے خلاف اپنی درخواست واپس کے لی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے خلاف بیرسٹر گوہر کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت بیرسٹرگوہر کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ہیں، ہم یہ اعتراضات دور کرکے دوبارہ درخواست دائر کریں گے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست واپسی کے لیے مؤقف پیش کیا کہ رجسٹرار آفس کی جانب سے متاثرہ فریق اور چند تکنیکی نوعیت اعتراضات عائد کیے گئے، تکنیکی اعتراضات کو دور کرکے درخواست دوبارہ سپریم کورٹ میں دائر کریں گے، رجسٹرار آفس کی جانب سے عائد اعتراضات کو تسلیم کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کا الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع
اس موقع پر آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جگہ میں ہوتا تو ابھی تک دوبارہ دائر کر چکا ہوتا، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آپ سے سیکھتے ہوئے ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست ترمیمی ایکٹ پر صدر کی توثیق سے پہلے دائر کی تھی، صدر کی توثیق کے بعد ہی درخواست دائر کرنا چاہیئے تھی۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے رواں برس 7 اگست کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف 184/3 کی آئینی درخواست بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کی وساطت سے دائر کی تھی۔ درخواست میں وفاق اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا۔
بیرسٹر گوہر نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو الاٹ کرنے سے فوری طور پر روک دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ تحریک انصاف مخصوص نشتوں کی فہرستیں الیکشن کمیشن جمع کرا چکی ہے، سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں تحریک انصاف کا حق ہیں لہٰذا خواتین و غیرمسلم کی مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کا حکم دیا جائے۔
آئینی بینچ نے اعتراضات دور کرنے کے لیے سلمان اکرم راجہ کی درخواست واپسی کی استدعا منظور کرتے ہوئے رجسٹرار آفس اعتراضات کے خلاف درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔
واضح رہے کہ حکومتی ارکان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا تھا، بل مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔
حکومت کا قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری لینے کا فیصلہ
6 اگست کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔
7 اگست کو پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
ترمیمی بل کے مطابق انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا، مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔