Aaj Logo

شائع 04 دسمبر 2024 03:11pm

پی ٹی آئی احتجاج میں ڈیوٹی سے انکاری اہلکار، اسلام آباد کے بعد پنجاب پولیس حرکت میں آگئی

اسلام آباد پولیس کے بعد اب پنجاب پولیس نے بھی پی ٹی آئی احتجاج کے دوران غیرحاضراہلکاروں کی برطرفی کا فیصلہ کرلیا۔

اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ نے تمام زونزکومراسلہ ارسال کردیا۔ ضابطہ اخلاق مکمل ہونے ہرغیرحاضراہلکاروں کی برطرفی ہوگی۔ ڈیوٹی سے غیرحاضررہنے والے 128 اہلکاروں کی لسٹ آج نیوزنے حاصل کرلی۔

اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ نے تمام زونز کوخط لکھ دیا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق آئی جی اسلام آباد کی ہدایت پر حالیہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال میں غیر حاضرہونے والوں کو برطرفی کی سزا دی جاسکتی ہے۔

احتجاج میں ڈیوٹی پر نہ پہنچنے والے اہلکاروں میں ایک انسپکٹرزاورایک سو ستائیں اہلکار شامل ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اہلکار جان بوجھ کر تحریک انصاف کے احتجاج میں ڈیوٹی کرنے سے انکارکرتے ہوئے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہے۔

اسلام آباد پولیس کی کارروائی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج میں ڈیوٹی سے انکار کرنے والے اہلکاروں کی شامت آگئی۔

اسلام آباد پولیس کے ان جوانوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے جنہوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں ڈیوٹی دینے سے انکار کیا تھا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد کی ہدایت پر وفاقی دارالحکومت کے اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ نے 3 دسمبر کو ایک سرکلر جاری کیا، جس میں ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے افسروں اور اہلکاروں کے خلاف انضباطی کارروائی کا حکم دیا گیا۔

یہ سرکلر ڈی آئی جی اسلام آباد، ڈی آئی جی سیکیورٹی، ڈی آئی جی لاء اینڈ آرڈر، ڈی آئی جی سیفٹی، اے آئی جی لاجسٹکس اسلام آباد، اور اے آئی جی سپیشل برانچ کو بھیجا گیا ہے۔

ہلاک ہونے والے کارکنوں کا کیس اقوام متحدہ لے کر جائیں گے، عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے اعلان

23 سے 26 نومبر تک غیر حاضر رہنے والے اہلکاروں کے خلاف دو روز میں کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی فہرستیں فوری طلب کی گئی ہیں۔

ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کو ملازمت سے برطرفی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔

پاک فوج کا پرتشدد ہجوم سے براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا، وزارت داخلہ

سیکریٹری داخلہ نے اسلام آباد میں براہ راست فائرنگ کا دعویٰ مسترد کر دیا

بدھ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘

Read Comments