Aaj Logo

شائع 03 دسمبر 2024 10:37am

آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے سرکاری ملازمین، اہلخانہ کے اثاثے بے نقاب کرنے کی تیاری

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 1.1 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنے سمیت سخت اقدامات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔

ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی دوسری قسط حاصل کرنے کے لیے حکومت کو 39 سخت شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ ان شرائط میں لازمی اثاثے ظاہر کرنا، ٹیکس میں چھوٹ کا خاتمہ، اور گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ جمع کرانا شامل ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے مخصوص اہداف مقرر کیے ہیں، جیسے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو تین ماہ کی درآمدات کے برابر رکھنا، مالیاتی اہداف کو پورا کرنا، اور عوامی مالیات کی تنظیم نو کرنا۔ دیگر اہم اصلاحات میں اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹ کے درمیان شرح مبادلہ کے فرق کو 1.25 فیصد کے اندر رکھنا اور مالی سال کے اختتام تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 8.65 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر کو یقینی بنانا شامل ہے۔

وزارت خزانہ نے تصدیق کی کہ 1.1 بلین ڈالر کی قسط کے لیے اہل ہونے کے لیے حکومت کو 22 نکات پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ایک اہم ڈیڈ لائن سرکاری ملازمین کے لیے فروری 2025 تک اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی اصرار کیا ہے کہ بجٹ میں کوئی اضافی گرانٹ نہ دی جائے اور مالیاتی نظم و ضبط کی ضرورت پر زور دیا۔

آئی ایم ایف ڈائریکٹر کا پاکستانی وفد سے اصلاحات کے تسلسل پر زور

دستاویز میں پبلک سیکٹر کی واجبات کو کم کرنے، حکومتی گارنٹی کو 5.6 ٹریلین روپے تک محدود کرنے، پاور سیکٹر کے قرضوں کو 417 ارب روپے تک محدود کرنے اور ٹیکس ریفنڈ میں تاخیر کو 24 ارب روپے سے زائد تک کنٹرول کرنے کا ذکر ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران میکرو اکنامک استحکام میں بہتری آئی ہے تاہم مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ثالثوں کے کردار کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔

آئی ایم ایف کا غربت کے خاتمے، سماجی تحفظ کے پروگرامز کو مزید توسیع دینے کا مطالبہ

اورنگزیب نے اس بات پر زور دیا تھا کہ موجودہ آئی ایم ایف قرضہ معاہدہ عالمی برادری کے لیے پاکستان کے اہم پیغام کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں ٹیکس، توانائی اور آبادی پر قابو پانے میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی، بچوں کی غذائی قلت، اور اسکول سے باہر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں خدشات کو اجاگر کیا۔

Read Comments