تحریک انصاف کے احتجاج کی کوریج کے دوران اٹھائے گئے صحافی مطیع اللہ جان نے گرفتاری سے قبل اسپتالوں میں کیا کچھ دیکھا؟ اس حوالے سے کئی بڑے انکشافات کئے ہیں۔
انہوں نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں بتایا کہ 27 نومبر کی رات ساڑھے 11 بجے کا وقت تھا جب انہیں پز اسپتال سے اٹھایا گیا، وہ پی ٹی آئی کی ہلاکتوں اور زخمیوں کے حوالے سے تفتیش کر رہے تھے۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ’جب ہم اسپتال سے نکلے تو کچھ لوگ تھے نقاب پوش ، اٹھایا انہوں نے، سر پر چادر ڈالی، اٹھا کر چھ ساتھ منٹ بعد ایک جگہ پر لے کر گئے اور کچھ دیر وہاں پر رکھا، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد مجھے اس وجہ سے اندازہ ہوا کہ شاید یہ پولیس کے لوگ ہیں کہ یہ مجھے پمز اسپتال میں اسی جگہ ڈاکٹری ملاحظے کیلئے لے کر آئے انہی ڈاکٹروں کے سامنے جن سے میں سوال جواب کر رہا تھا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈاکٹر موصوف صاحب نے بھی ملزم کے منہ سے چادر ہٹاکر نہیں دیکھی کہ ملزم کی صحت کیا ہے حالت کیا ہے، وہ بھی ایسے سوال جواب کر رہے تھے جیسے ڈاکٹر کم اور پولیسیے زیادہ ہیں‘۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہاں پر ریکارڈ کو چھپایا جارہا تھا، یہاں تک بتایا گیا کہ وارڈ میں جو زخمی گئے تھے گن شاٹ وونڈز کے لوگ، ان تمام مریضوں کی جو فائلیں ہیں وہ پمز کی انتظامیہ کے وزارت داخلہ کے حکم پر، وزیر داخلہ محسن نقوی کے حکم پر اپنے قبضے میں کرلی ہیں اور کنٹرول میں کرلی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ایک تو وہ تھے جن کی لاشیں لائی گئی تھیں، ایک وہ ہیں جن زخمی آئے تھے اور وارڈز میں یا آپریشن کے دوران ان کی موت واقع ہوئی تھی، ان کا ریکارڈ میں وزارت داخلہ کے پاس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی وارڈ میں جو ڈیتھ رجسٹر ہوتا ہے وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس سے کچھ چیزوں کو ہم نے نوٹ کیا لیکن وہ ڈیتھ رجسٹر بھی غائب کردیا گیا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ میرے پاس جو اطلاعات اور دستاویز ہیں ان کے مطابق تقریباً 7 سے 8 کے قریب لاشیں لائی گئیں، اس کے علاوہ وہ ہیں جو گولیوں سے زخمی ہوئے اور وارڈز میں جا کر ان کی موت ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک کیس مجھے یہ بھی بتایا گی کہ دو سگے بھائی تھے، ایک کی موت ہوگئی، مجھے اس کا نام بلال بتایا گیا، اور اس کا دوسرا بھائی وہ بھی شدید زخمی ہے، وہ وارڈ میڈیکل 6 میں تھا، اس کا ابھی ہمیں کچھ نہیں پتا، جب ہم معلوم کرنے گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کوئی سوال جواب نہیں کرسکتے، ریکارڈ اور فائلیں ہی غائب ہیں ان کی جن کی بعد میں موت ہوئی‘۔