جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی مظاہرین کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی۔ اسلام آباد میں احتجاج اس وقت پرتشدد ہو گیا تھا جب مظاہرین ”ریڈ زون“ کے قریب پہنچے جہاں اہم سرکاری عمارتیں واقع ہیں۔ پولیس اور رینجرز کی مظاہرین سے جھڑپ ہوئی۔
پاکستان کے دارالحکومت میں رات گئے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بڑا کریک ڈاؤن ہوا، جس نے پی ٹی آئی مظاہرین کو روکا۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ مظاہرے کے دوران کتنے لوگ جاں بحق ہوئے۔
تاہم پی ٹی آئی کے اراکین اور حامیوں کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں 300 مظاہرین مارے گئے کیونکہ پولیس اور فوج نے ان پر براہ راست گولیاں چلائیں۔
کئی صارفین چھاپے کے بعد کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر #IslamabadMassacre ہیش ٹیگ کا استعمال کر رہے ہیں۔
کسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ 100 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور ان کی لاشیں چھپائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کچھ ویڈیوز اور ایک وائرل تصویر شیئر کی جس میں قیاس کے مطابق اسلام آباد میں جناح ایونیو کو مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد خون میں لت پت دکھایا گیا ہے۔ یہ تصاویر پی ٹی آئی کی طرف سے شئیر کی گئی ہیں۔
تاہم ڈوئچے ویلے کے بقول یہ سب اصلی نہیں بلکہ کئی تصاویر اے آئی کی مدد سے تیار کی گئی ہیں یا تبدیل کی گئی ہیں، اور کچھ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بھی پیش کیا گیا ہے۔
جرمن میڈیا کے فیکٹ چیک کے مطابق جس تصویر میں جناح ایونیو کی شاہراہ کو خون میں لت پت دکھایا گیا ہے وہ دراصل جناح ایونیو ہے ہی نہیں۔ اصلی جناح ایونیو میں ایک چوڑی سڑک ہے جس میں ہر سمت میں دو لینیں موجود ہیں، اور درمیان میں چھوٹے پودے ہیں۔ اے آئی کی مدد سے جعلی تصویر یہاں شئیر کی گئی ہے۔
جس تصویر میں جناح ایونیو کو خون آلود دکھایا گیا ہے وہ اصل جگہ سے میچ نہیں کر رہی۔ پہلی نظر میں یہ واضح ہے کہ یہ جناح ایونیو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، تصویر ممکنہ طور پر کیمرے کے ذریعہ نہیں لی گئی تھی، بلکہ اے آئی کی مدد سے بنائی گئی تھی۔ روشنی غیر فطری لگتی ہے، جیسے یہ کسی اسٹیج سے ہو۔ سڑک پر موجود خون بھی اصلی ظاہر نہیں ہوتا، یہاں تک کہ دونوں طرف کی عمارتوں کے زاویے بھی عجیب لگتے ہیں۔
وہیں ایک صارف کی جانب سے ایک تصویر پوسٹ کی گئی جس میں ایک ایمبولینس میں لاشوں کا دکھایا گیا اور پوسٹ پر کیپشن ایسا دیا کہ یہ پی ٹی آئی ورکرز کی لاشیں جو پولیس سے جھڑپ کے دوران جاں بحق ہوئے مگر یہ درست نہیں۔ یہ تصویر پاکستان کی نہیں بلکہ حقیقت میں غزہ کی ہے۔
ایک وائرل ویڈیو میں پی ٹی آئی کے حامی کو ایک کنٹینر پر گھٹنے ٹیکے اور نماز پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جسے چار رینجرز اہلکار وہاں سے دھکا دے دیتے ہیں، اور وہ شخص کنٹینرز سے گر پڑتا ہے۔ اس شخص کی قسمت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے، کیوں کہ آیا وہ زخمی ہے یا مر گیا ہے اس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
دیگر ویڈیوز اور تصاویر میں زخمی یا بے ہوش لوگوں کو دکھایا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے مختلف حکام اور احتجاج کے عینی شاہدین کے ساتھ ساتھ زمین پر موجود ہسپتال کے عملے سے بات کی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) کے دو طبی عملے کے ارکان جو منگل کی رات جھڑپوں کے دوران ڈیوٹی پر تھے، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے پی ٹی آئی کا دعویٰ غلط ہے۔
پمز کے ایک طبی عملے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’پمز ہسپتال کو دو لاشیں موصول ہوئیں۔ ایک دمے کا مریض جو شدید آنسو گیس کی وجہ سے ہلاک ہوا، اور دوسرے مردہ شخص کے کپڑے خون میں بھیگے ہوئے تھے اور میں نے ان کی لاش دیکھی ہے۔‘
اس رات ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر نے مزید کہا، ’منگل کی رات ایمرجنسی رومز میں تقریباً 20 زخمیوں کا علاج کیا گیا، ان میں سے بہت سے لوگوں کو علاج کے بعد فارغ کر دیا گیا کیونکہ وہ آنسو گیس سے متاثر ہوئے تھے۔‘