بھارت کا دارالحکومت کم و بیش دو ماہ سے خبروں میں ہے۔ دُھویں اور دُھند کے باعث دہلی اور اُس سے ملحق علاقوں کے کروڑوں باشندے انتہائی نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ سانس لینا بھی دوبھر ہوچکا ہے۔ اس وقت بھی دہلی شدید اسموگ کی زد میں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دہلی میں رہنے والوں کی عمر میں 5 سے 8 سال کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
دہلی میں جب اسموگ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے تب ایئر کوالٹی انڈیکس میں خرابی کا گراف 400 یا اُس سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ دہلی میں وہ گھر کیسا ہوگا جس میں آلودگی برائے نام ہے یعنی خرابی کا گراف صرف اور صرف 15 پوائنٹس تک چڑھ پاتا ہے۔
دہلی کی رہائشی سوسائٹی سینک فارمز میں سکونت پذیر پیٹر سنگھ اور نینو کور نے اپنے گھر کو قدرت کے نظام سے مکمل طور پر ہم آہنگ کر رکھا ہے۔ اُن کے گھر میں کم و بیش 15 ہزار پودے ہیں۔ مکان کی تعمیر میں سیمنٹ کے بجائے چُونا استعمال کیا گیا ہے۔ اس جوڑے نے اپنے گھر کو پینٹ بھی نہیں کروایا بلکہ چُونے سے پُتوایا ہے۔
پیٹر سنگھ اور نینو کور کے گھر میں گرڈ کی بجلی استعمال نہیں کی جاتی۔ یہ گھر شمسی توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ یہ لوگ بارش کا پانی پورے اہتمام سے جمع کرتے ہیں۔ جب موسلا دھار بارش ہوتی ہے تب یہ اپنے گھر کا ٹینک پوری توجہ سے بھرلیتے ہیں اور یہ پانی فلٹر کیے جانے پر کئی ماہ تک زیرِاستعمال رہتا ہے، بالخصوص پینے کے معاملے میں۔
دہلی میں ایئر کوالٹی انڈیکس خرابی کے زمانے میں 300 سے زائد ہو جاتا ہے جبکہ پیٹر سنگھ اور نینو کور کے گھر میں ایئر کوالٹی انڈیکس 10 سے 15 رہتا ہے۔ اس گھر کی ڈیزائننگ اس طور کی گئی ہے کہ ہر طرف پودے دکھائی دیتے ہیں اور اچھے بھی لگتے ہیں۔ مکان کی طرزِ تعمیر ہی ایسی ہے کہ پورے گھر کو سبزہ زار ہونا چاہیے تھا اور وہ ہے۔
چھت پر کنکریٹ اور سلیب کے بجائے خالص پتھروں کی ٹائلز لگائی گئی ہیں۔ طرزِ تعمیر میں بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ شدید گرمی میں مکان بالکل ٹھنڈا رہے اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب دہلی کے لوگ شدید گرمی کے باعث اپنے گھروں میں تپ رہے ہوتے ہیں تب اس گھر کے لوگ پُرسکون لمحات گزار رہے ہوتے ہیں۔
مکان کا زیرزِزمین ٹینک 15 ہزار لیٹر کا ہے۔ بارش کا پانی اس ٹینک میں بھرلیا جاتا ہے اور پودوں کو یہی پانی دیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بارش کا پانی ری سائیکل کرکے استعمال کیا جاتا رہے۔ پانی کا ضیاع روکنے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔
پیٹر سنگھ اور نینو کور کو سبزیاں اور پھل بھی نہیں خریدنا پڑتے۔ وہ سبزی بھی اُگاتے ہیں اور پھل بھی۔ پودوں اور درختوں کے لیے وہ کیمیائی کھاد استعمال نہیں کرتے بلکہ پتوں اور جڑوں کو ملاکر دفن کرتے ہیں۔ کچھ دن میں قدرتی کھاد تیار ہو جاتی ہے۔
اس انوکھے گھر کی کہانی کی جڑیں ذاتی دُکھ میں پائی جاتی ہیں۔ پیٹر سنگھ کی اہلیہ نینو خون کے کینسر میں مبتلا تھیں۔ کیمو تھیراپی کے مرحلے سے گزرنے پر اُن کے پھیپھڑے بہت کمزور ہوگئے۔ دہلی کی زہر آلود فضا میں سانس لینا اُن کے لیے انتہائی دُشوار ہوگیا۔
ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ وہ دہلی چھوڑ دیں تاہم ایک اور معالج نے، جو آیر وید اسپیشلسٹ تھا، اُن پر زور دیا کہ وہ مکمل طور پر قدرتی ماحول کو اپنالیں۔ کچھ دن انہوں نے گوا میں قیام کیا جہاں اُن کے بیٹے نے مکان خرید رکھا ہے۔ پیٹر سنگھ اور نینو کور دہلی واپس آئے اور اِس عزم کے ساتھ کہ اپنے گھر کو ہر اعتبار سے قدرت کا شاہکار بنادیں گے، ایسا ماحول پیدا کریں گے جس میں زندگی کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
آج پیٹر سنگھ اور نینو کور کا گھر ماحول دوست طرزِ زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔ اُنہیں نے دنیا کو بتادیا ہے کہ گرین لائف اپناکر زندگی کا معیار قابلِ رشک حد تک بلند کیا جاسکتا ہے۔ دہلی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ پیٹر سنگھ اور نینو کور نے اپنے مکان کو دہلی کے ریگستان میں نخلستان ثابت کیا ہے۔ اس سے اچھی اور بھرپور زندگی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان دُھویں سے بھرے ہوئے شہر میں صاف ہوا کا اہتمام خود کرسکتا ہو اور پیٹ بھرنے کے لیے درکار ساری چیزیں خود اُگا سکتا ہو۔