Aaj Logo

شائع 29 نومبر 2024 09:09am

تمہارے پیسے نہیں چاہئیں، منشیات کے عادی افراد کی زندگی کے مسائل

منشیات کی لت نہ صرف ایک فرد کی زندگی کو تباہ کرتی ہے بلکہ اسے معاشرے سے الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ منشیات کے عادی افراد کو قدم قدم پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ روزمرہ کی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ہو، ملازمت حاصل کرنا ہو، یا علاج کروانا ہو۔ یہ افراد معاشرتی تعصب، حقارت اور بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی بحالی کا عمل مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

آج ٹی وی کے پروگرام ٹارگٹ کے میزبان شیری نے ایک منفرد تجربہ کرکے منشیات کے عادی افراد کی زندگی کے حقیقی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے خود کو ایک منشیات کے عادی فرد کے روپ میں پیش کیا تاکہ اس طبقے کو درپیش مشکلات کو قریب سے دیکھا جا سکے۔

کھانے کا مسئلہ

شیری نے اپنے تجربے کا آغاز ایک عام چائے کے ہوٹل سے کیا۔ انہوں نے وہاں جا کر ایک ویٹر کو ناشتہ دینے کی درخواست کی اور ایک انڈا، پراٹھا اور چائے کا آرڈر دیا۔ حالانکہ شیری کے پاس رقم موجود تھی، پھر بھی ہوٹل والے نے انہیں ناشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ ویٹر نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا، ”مجھے تمہارے پیسے نہیں چاہئیں۔“ شیری نے محسوس کیا کہ منشیات کے عادی افراد کو نہ صرف دھتکارا جاتا ہے بلکہ ان کے لیے سماج میں ایک عام زندگی گزارنا بھی ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔

روزگار کا مسئلہ

شیری نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر منشیات کا عادی فرد کہیں ملازمت کے لیے درخواست دے تو کیا اسے قبول کیا جائے گا؟ انہوں نے ایک ورکشاپ پر جا کر اپنی پڑھائی اور قابلیت کے بارے میں بتایا۔ لیکن انہیں یہ کہہ کر مذاق کا نشانہ بنایا گیا، ”اگر تم نے گریجویشن کیا ہے تو ہم لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟“ ان کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اپنایا گیا اور نوکری دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔

علاج کے دوران مشکلات

شیری نے منشیات کے عادی افراد کے علاج کے بارے میں جاننے کے لیے ایک نجی اسپتال کا رخ کیا۔ وہاں عملے نے پہلے علاج کے لیے رقم کا مطالبہ کیا اور پھر کہا کہ اسپتال میں اس وقت کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ یہ رویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ منشیات کے عادی افراد کو علاج کے عمل میں بھی سنگین رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس تجربے نے یہ واضح کیا کہ منشیات کے عادی افراد نہ صرف اپنی عادت کی وجہ سے بلکہ معاشرتی رویوں کے باعث بھی شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں نہ کھانے کو عزت سے کچھ دیا جاتا ہے، نہ روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، اور نہ ہی علاج کے دوران ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

Read Comments