Aaj Logo

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2024 06:11pm

شیلنگ، بھوک، پیاس اور چاروں طرف مشتعل مظاہرین

23 نومبر کی شام گھر جاتے ہوئے مجھے کل کا ڈیوٹی شیڈول بتایا گیا جس کے مطابق مجھے اگلی صبح یعنی 24 نومبر کو پی ٹی آئی کی فائنل کال کو کور کرنا تھا۔ عام طور پر کسی بھی جلسے کی کوریج کے لئے بجٹ میں فیول اور زاد راہ کا انتظام شامل ہوتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی گذشتہ کچھ ریلیوں کے بعد کچھ اور چیزیں بھی زاد راہ کاحصہ بن گئیں تاکہ راستے میں پیش آنے والی کسی بھی مشکل سے بچا جا سکے۔

میرے سامنے پڑے ڈبے میں آنسو گیس کے شیل کا مقابلہ کرنے کے لئے ماسک، گاگلز، ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ کے ساتھ چھوٹے ٹاولز کا ایک سیٹ بھی موجود تھا۔ ایک نظر اس سارے سامان کو دیکھ کر خیال آیا کہ کیا میں کسی جنگ پر جانے والا ہوں؟ لیکن پھر خود ہی اپنے خیال کی تصحیح کی کہ جنگ پر نہیں جنگ کی کوریج کرنے جا رہا ہوں اور ادارے نے صحافتی اصولوں کے پیش نظر ہماری حفاظت کے لئے یہ سامنا ہمیں بھیجا ہے۔ خیر آنے والے کل کے لئے ساری تیاری کرنے اور بیورو چیف کے ساتھ کوریج پلان ڈسکس کرنے کے بعد میں نے گھر کی راہ لی۔

24 کی صبح ایک عام سے معمول کی صبح تھی لیکن گھر سے نکلتے ہوئے گھر والوں کو یہ بتا دیا کہ اگرچہ ڈیوٹی آورز 8 گھنٹے ہیں لیکن آج واپسی مشکل لگ رہی ہے تو ہوسکتا ہے دو روز کے بعد ملاقات ہو۔

8 بجے پی ٹی آئی کی فائنل کال پر پہلا بیپر کرنے کے بعد 10 بجے ریلی پشاور موٹر وے ٹول پلازہ پہنچے۔

صبح گیارہ بجے پشاور ٹول پلازہ سے پی ٹی آئی قافلوں نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے فائنل راؤنڈ میں روانہ ہونا تھا لیکن حسب معمول پی ٹی آئی لیڈرشپ تاخیر سے پہنچی تب تک اکاد کا قافلے درجنوں ورکرز کو لیکر آگے کی جانب بڑھتے رہے۔

موٹروے کے زریعے جب ہم چارسدہ انٹرچینج پہنچے تو ایک قافلہ پہلے سے وہاں موجود مرکزی قافلے کا انتظار کررہا تھا، اسی طرح مردان کا قافلہ بھی دیکھا اور آگے چل کر نوشہرہ کا قافلہ ولی انٹرچینج پر دکھائی دیا۔ اب مغرب کا وقت ہونے کو تھا کہ مختلف قافلے صوابی ریسٹ ایریا جمع ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں مرکزی کنٹیر پر ممبران قومی اسمبلی عاطف خان، اسد قیصر اور شہرام ترکئی نے بھی کارکنوں سے مختصر خطابات کئے۔

ایسے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے پروٹوکول کے ساتھ نمودار ہوئے اور کارکنوں کے نعروں میں مرکزی کنٹینر پر سوار ہوگئے، کارکنوں سے مختصر خطاب میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ متحد ہوکر رہنا ہے اور اپنی منزل ڈی چوک پہنچنا ہے، یہ کہہ کر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین نے ورکرز کو گاڑیوں میں سوار ہوکر آگے بڑھنے کا کہا اور مرکزی کنٹینر اسلام آباد کی جانب گامزن ہوگیا۔

یہاں اہلیہ بانی پی ٹی آئی بشری بی بی کے اس حکم کو میں نے نظرانداز ہوتے ہوئے دیکھا کہ جس میں انہوں نے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو 5 اور دس ہزار کارکن اپنے حلقوں سے لانے کا کہا تھا جسکا عملی نمونہ مختلف تھا۔

اب کافی رات ہوچکی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب پولیس کی جانب سے پہلی رکاوٹ کا سامنا غازی بروتھا پل پر کرنا پڑا جہاں پنجاب حکومت کی جانب سے کنٹینرز لگاکر راستہ بند کیا گیا تھا…. بس پھر کیا تھا ورکرز آگے بڑھتے تھے تو دوسری جانب سے شلینگ شروع ہوجاتی تھی جسکے بعد پی ٹی آئی کارکن واپس پیچھے چلے جاتے لیکن یہاں یہ بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت لیڈرشپ بہت پیچھے تھی اور کارکن آگے جو دوسری جانب سے ہونے والی شلینگ اور مزاحمت کو بے سروسامانی کی حالت میں جھیل رہے تھے کیونکہ لیڈرشپ کی جانب سے بھاری مشینری کو راستہ کلئیر کرنے کا صوبائی حکومت کا دعویٰ بھی ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیا۔

غازی بروتھا پل پر پی ٹی آئی اور پنجاب پولیس کی آنکھ مچولی تقریباً پانچ گھنٹوں تک جاری رہی اور پھر کئی گھنٹوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد پی ٹی آئی ورکرز کو کامیابی ملی اور پنجاب پولیس پیچھے ہوگئی جسکے بعد ورکرز نے کنٹینرز کو وہاں پہلے سے موجود بڑے بائیس ویلر ٹرکوں میں رسے باندھ کر ہٹانا شروع کیا اور آگے بڑھے جسکے بعد دوسری رکاوٹ موٹروے پر پتھر نگر کے مقام پر پنجاب حکومت کی جانب سے لگائی گئی تھی جسکو ہٹانے کے لئے دوبارہ سے پہلے والی آنکھ مچولی شروع ہوگئی۔

اُس رات حفاظتی گیجڈ پہنے شدید شیلنگ میں بیپر کرتے ہوئے کئی بار کئی کلو گرام وزنی بلٹ پروف جیکٹ کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل ہو رہا تھا جبکہ ربڑ بلٹس کا مقابلہ کرنے کے لئے سر پر رکھی ہیلمٹ ایک الگ مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ایک وار رپورٹر کی طرح کوریج کرنا کا اگرچہ یہ پہلا تجربہ نہیں تھا لیکن ساری رات کی شیلنگ، نیند کا ہونا اور صرف ہلکی پھلکی خشک خوراک پر کئی گھنٹے ایسے ماحول میں گزارنا کہ جب چاروں طرف ایسے مظاہرین نے آپکو گھیر رکھا ہو جو آپکے لئے کسی بھی وقت مشکل کا سبب بن سکتے ہیں ،میں رہنے کا تجربہ کافی مشکل اور خطر ناک تھا۔

اب 25 نومبر کی صبح ہوچکی تھی یہ صبح چار بجے کا وقت تھا کہ کنٹینرز ہٹا دیئے گئے اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور خود ورکرز کے پاس ائے اور انھیں آگے بڑھنے کا کہا۔

اُس رات کو ان آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ پی ٹی آئی کارکن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو کسی صورت بھی اکیلا چھوڑنے کو تیار نہیں تھے اور ہر جگہ وزیراعلیٰ ورکرز کے حصار میں ہی دکھائی دئیے کیونکہ اکثر کارکن آوازیں کستے بھی دکھائی دیئے کہ کہیں وزیراعلیٰ اس بار دوبارہ غائب نہ ہوجائے۔ اسی بے اعتباری اور کشمکش میں پی ٹی آئی احتجاجی تحریک کا قافلہ پتھر نگر سے آگے بڑھا تو ہزارہ انٹرچینج پر ایک اور قافلہ پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی سربراہی میں ہزارہ ڈویژن سے براستہ موٹروے آیا۔ تاہم قافلے کو رکاوٹیں عبور کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے سینکڑوں ورکرز کے ساتھ ہزارہ ڈویژن کے قافلے کو لینے پہنچے اور رکاوٹیں ہٹاکر قافلے کو مرکزی قافلے میں شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

یوں ایک بار پھر فائنل کال کا قافلہ منزل کی جانب گامزن ہوگیا لیکن یہاں ہمیں پنجاب پولیس کی ایک وین بھی دکھائی دی جو پی ٹی آئی کارکنوں کے ہتھے چڑ گئی بس پھر کیا تھا جسکا جو دل آیا کرتا رہا۔کسی نے شیشے توڑے تو کسی نے نعرے لگائے۔

اور یوں مرکزی قافلہ کچھوے کی رفتار سے بڑھتا ہوئے کٹی پہاڑی پہنچ گیا لیکن یہاں پھر سے مرکزی قافلے کا انتظار کئے بغیر کارکن آگے بڑھے اور حیرت انگیز طور پر ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں کٹی پہاڑی سے بھی پنجاب پولیس کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے۔اس دوران کارکن پنجاب پولیس و وفاقی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے جبکہ اسی کٹی پہاڑی کے علاقے میں پنجاب پولیس کے چار جوانوں کو پی ٹی آئی کارکنوں نے قابو کیا اور تھپڑوں مکوں ،لاتوں اور گھونسوں سے خوب خاطر مدارت کی تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے خود جاکر پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو کارکنوں سے چھڑایا یہ وہی جگہ تھی جہاں پی ٹی آئی کارکنوں کے ہاتھوں نجی میڈیا ہاوس (نیو نیوز) کی ٹیم پر بدترین تشدد کیا گیا۔

پی ٹی آئی احتجاجی تحریک کی فائنل کال میں آئے کارکنوں کے پاس شلینگ کے بچاؤ کے لیے ماسک، عینکیں، ڈنڈے، پتھر، بنٹے اور غلیلیں بھی موجود تھیں جبکہ کٹی پہاڑی کے علاقے میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پی ٹی آئی کارکن اپنی گاڑیوں سے نمبر پلیٹیں اتارتے رہے۔

اب یہ وہ جگہ تھی جہاں ہمیں پہلی بار معروف ٹک ٹاکر اور پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید ایک گاڑی کے سن روف سے نکلتے ہوئے نظر آئیں۔ انھوں نے وہاں ویڈیوز بھی بنائیں۔

اسی طرح قافلہ آگے بڑھا اور آخری معمولی رکاوٹ ہمیں براہمہ باہتر جھنگ انٹرچینج پر دکھائی دی جوکہ آدھے گھنٹے میں ورکرز نے کلئیر کر دی۔ یہاں ہمیں بانی چیرمین کی اہلیہ بشری بی کی ترجمان اور معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ مشال یوسفزئی گاڑی کی چھت پر سلفیاں لیتی دکھائی دیں۔

حیرت انگیز طور پر یہاں سے اسلام آباد ٹول پلازے تک ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں دکھائی دی جبکہ اب مرکزی قافلے کی رفتار میں بھی کافی حد تک اضافہ چکا تھا۔ اب یہ وہ مقام تھا جب احتجاجی مظاہرے میں شریک ہر دوسرا شخص یہ کہتا دکھائی دے رہا تھا کہ وفاقی حکومت کو شکست ہوگئی اور اب بس اسلام آباد جاکر بانی پی ٹی آئی کو جیل سے باہر نکالنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اس دوران 25 نومبر کی بھی شام ڈھل چکی تھی اور ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ گزشتہ رات یعنی 24 نومبر کی طرح یہ رات بھی موٹروے پر ہی گزارنی پڑے گی لیکن ساری پیش گوئیاں دم توڑ گئیں اور پی ٹی آئی قافلہ ہکلہ انٹرچینج پر پہنچا تو پہلے سے ہی جنوبی اضلاع کا بڑا قافلہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے بھائی مئیر ڈیرہ اسماعیل عمر امین گنڈاپور کی قیادت میں پہنچ چکا تھا جو مرکزی قافلے میں شامل ہوا تو اب گزشتہ روز والے قافلے سے اب کارکنوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی تھی۔

اسلام آباد ٹول پلازے پر ہم پہلے سے ہی پہنچ گئے تاکہ مرکزی قافلے کی کوریج کی جاسکے لیکن یہاں پھر سے حیران کن طور پر کارکنان پہلے ہی اسلام آباد میں داخل ہوگئے تھے اور مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہے تھے تاہم مرکزی قافلے نے اسلام آباد کے ٹول پلازہ تک پہنچنے میں بھی کئی گھنٹے لگادئیے….ٹول پلازے سے چند فرلانگ پہلے مرکزی کنٹینر رکا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اپنی گاڑی سے اتر کر کنٹینر پر سوار ہوگئے اور خیبرپختونخوا احتجاجی تحریک کی فائنل کال کا بڑا قافلہ اسلام آباد کی حدود میں علی امین گنڈاپور کی قیادت میں داخل ہوگیا اور پھر مرکزی کنٹینر پر سے کارکنوں کو لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلان میں پیغام دیا گیا کہ یہاں کچھ دیررک کر قیادت کی کال کا انتظار کریں۔

یہ سارے وہ حقائق تھے جو ہم نے فائنل کال کی احتجاجی تحریک کے آغاز سے لیکر اسلام آباد ٹول پلازے ہم نے دیکھے اور انکو الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کردئیے اب اسلام آباد میں کیا ہوا اللہ جانے یا اسلام آباد کے صحافی۔۔۔۔ کیوں ہم قافلے کے اسلام آباد داخل ہونے کے بعد پشاور پلٹ آئے۔ لیکن دو دن کے اس سفر میں متعدد مقامات پر ہمیں پی ٹی آئی ورکرز کی جانب سے حقیقت نہ دکھانے والے بکاؤ میڈیا کے طعنے بھی سننے پڑے ۔کئی کارکن آتے جاتے ہماری ڈی ایس این جی کو ہاتھوں میں پکڑی لاٹھیاں مارتے ،کوئی گزرتے ہوئے لات مارتا تو کوئی پی ٹی آئی ریلی ٹی وی پر نہ دکھانے کے نتیجے میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دیتا لیکن میں خود کو اور اپنی ٹیم کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بچانے کی کوشش میں انکی ہاں میں ہاں ملا کر چپ ہو جاتا۔

اور یوں بے بسی اور پریشانی سے بھر پور 38 گھنٹے کی صبر آزما کوریج کے بعد پشاور لوٹ آئے۔

Read Comments