کرم میں متحارب فریقین نے جنگ بندی کے حکومتی اعلان کو ہوا میں اڑا دیا۔ ضلع کُرم میں جھڑپیں 6 روز سے جاری ہیں اور اس دوران جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 111 ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ کرم میں فریقین کے درمیان جنگ بندی خوش آئند ہے۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور نے پی ٹی آئی احتجاج سے فارغ ہونے کے بعد کرم تنازع پراعلیٰ سطح اجلاس طلب کر لیا ۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری، آئی جی پی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور دیگر حکام نے شرکت کی تھی۔
اس سے قبل اطلاعات موصول ہوئی تھی کہ حریف برادریوں کے مابین تصادم کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 89 ہوگئی۔
تازہ اطلاعات کے مطابق 150 افراد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ بگن پر لشکر کشی کے بعد لڑائی پورے کرم میں جنگ کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے۔اس وقت بگن علیزئی، ٹالوکنج، جیلامئے، کونج علیزئی مقبل، خار کلے بلیش خیل کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
واضح رہے کہ پاراچنار شہر سے 60 کلومیٹر فاصلے پر واقع علاقہ بگن اور لوئر علیزئی کے لوگ اُس وقت مورچہ زن ہوئے جب 21 نومبر کو مسافر قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا، اس حملے کے نتیجے میں 7 خواتین، 3 بچوں سمیت 43 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
واقعہ کے بعد حالات معمول سے باہر ہوگئے اور فریقین ایک دوسرے خلاف مورچہ زن ہیں۔ رات گئے فریقین نے ایک دوسرے پر لشکر کشی بھی کی، جس کے نتیجے میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
ضلع کرم کے تین مقامات اپر کرم کے گاؤں کنج علیزئی اور مقبل ، لوئر کرم کے بالش خیل اور خار کلی سمیت لوئر علیزئی اور بگن کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ تاحال جاری ہے۔
بھاری اور خودکار اسلحہ کے استعمال کے باعث مختلف مقامات میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے، متعدد دیہاتوں سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق اب تک کئی خاندان ٹل پہنچ چکے ہیں، دوسری جانب بالش خیل ، خار کلی اور علیزئی سے بھی نقل مکانی ہو رہی ہے۔