جنوبی وزیرستان، پاکستان کا ایک ایسا خطہ ہے جسے بہت کم لوگ ہی زرخیز زمینوں اور شاندار پھلوں کی پیداوار کے حوالے سے جانتے ہوں۔ یہاں سالانہ 88 ہزار ٹن سیب کی پیداوار ہوتی تھی، جو نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کرتی بلکہ بین الاقوامی منڈیوں تک بھی پہنچتی تھی۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات نے یہاں کے کسانوں کے لیے نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی اور کاشتکاری کے انداز میں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
وانا کے رہائشی ملک شہریار وزیر، جو طویل عرصے سے سیب کے باغات کے مالک ہیں، اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پانی کی سطح 40 سے 50 فٹ نیچے جا چکی ہے اور بے وقت بارشوں اور ژالہ باری نے ان کے باغات کو برباد کر دیا ہے۔
شہریار وزیر کہتے ہیں، ’پہلے ہمارے علاقے میں نومبر کے مہینے میں شدید سردی ہوتی تھی، جو سیب کی پیداوار کے لیے بہت موزوں تھی، لیکن اب گرمی نے موسمی توازن کو خراب کر دیا ہے۔ اوپر سے بیماریوں نے باغات کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ اب باغبانی جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔‘
جنوبی وزیرستان کے ایک اور کسان، عمر خان، جو پولیو کے باعث معذوری کا شکار ہیں، اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’میرے انار کے باغ کا 95 فیصد حصہ بیماریاں لگنے کی وجہ سے ضائع ہو چکا ہے۔ پانی کی کمی اور بیماریوں نے باغبانی کو نقصان دہ بنا دیا ہے۔ مجبوراً میں نے گندم کی کاشت شروع کی ہے، لیکن اس تبدیلی سے مالی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔‘
عمر خان کا کہنا ہے کہ بچپن سے وہ اپنی معذوری کے باوجود ہمت نہیں ہارے، لیکن بدلتے موسم اور بے وقت کی بارشوں نے ان کے ارادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ ’یہ سب کچھ قدرتی آفات کی طرح ہے، جس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔‘
محکمہ زراعت جنوبی وزیرستان کے اعداد و شمار بھی اس سنگین صورتحال کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، گزشتہ دو سالوں کے دوران صرف سیب کی پیداوار میں 15 سے 20 ہزار ٹن کی کمی واقع ہوئی ہے۔ دیگر پھلوں، جیسے آڑو، الوچے، اور انار کی پیداوار بھی تیزی سے متاثر ہوئی ہے۔
محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر انور خان بیٹنی کہتے ہیں، ’موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بے وقت بارشیں اور ژالہ باری معمول بن چکی ہیں، جن کی وجہ سے پھل دار درختوں کو بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ یہ بیماریاں پیداوار کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ ہم کاشتکاروں کو ایسے پھلوں کی کاشت کی ترغیب دے رہے ہیں جو بدلتے موسم سے ہم آہنگ ہوں، لیکن خراب موسم ایک بڑی رکاوٹ ہے۔‘
ملک شہریار وزیر کا کہنا ہے کہ سیب کی اچھی پیداوار کے لیے موسم کا دارومدار بہت اہم ہے، لیکن اب ژالہ باری اور گرم موسم کی وجہ سے اعلیٰ معیار کے سیب پیدا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ’ہماری پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ کوالٹی بھی متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ہماری مصنوعات کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، اور نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
جنوبی وزیرستان کی زرعی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ زراعت نے اس خطے میں زیتون کی کاشت کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ اب تک 30 ہزار سے زائد زیتون کے درخت لگائے جا چکے ہیں، اور جنگلی زیتون کی گرافٹنگ کی جا رہی ہے۔ اس سے سالانہ 10 ہزار لیٹر تیل حاصل کیا جا رہا ہے، اور مستقبل میں اس پیداوار کو تین گنا تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔
اس کے باوجود، جنوبی وزیرستان کے میدانی اور پہاڑی علاقے اب بھی زراعت کے لیے موزوں ہیں۔ یہاں کے کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے موثر اور دیرپا حل کی ضرورت ہے۔ پانی کی فراہمی، بیماریوں پر قابو پانے، اور جدید زراعتی تکنیکوں کو اپنانے سے یہ خطہ دوبارہ اپنے باغاتی عروج کو حاصل کر سکتا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے کسانوں کی داستان صرف اس خطے تک محدود نہیں بلکہ یہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کس طرح دنیا بھر کے کسانوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ان مسائل پر توجہ دی جائے اور زراعت کو پائیدار بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔