انڈیا کے سابق کرکٹر اور پنجاب کانگریس کے سابق صدر نوجوت سنگھ سدھونے اعلان کیا ہے کہ ان کی اہلیہ نوجوت کور سدھو سٹیج فور کینسر سے صحتیاب ہو گئی ہیں۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ صحتیابی ممکن ہوئی کیونکہ ان کی اہلیہ نے اپنی خوراک میں لیموں کا پانی، کچی ہلدی، سیب کا سرکہ، نیم کے پتے، تُلسی، لوکی، انار، آملہ، چقندر اور اخروٹ جیسی غذائیں شامل کیں۔ یہ غذائیں ان کی قوتِ ارادی اور صحت مند طرزِ زندگی کا حصہ تھیں، جس کی بدولت انہوں نے کینسر پر قابو پایا۔
نوجوت سنگھ سدھو نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان کی اہلیہ کے صحت یاب ہونے کے امکانات صرف چار سے پانچ فیصد قرار دیے تھے۔ اس صورتحال میں انہوں نے امریکہ کے ڈاکٹروں اور انڈیا کے ماہرین کینسر سے مشورے کے ساتھ ساتھ گھنٹوں میڈیکل تحقیق اور ایورویدک علاج پر مطالعہ کیا۔
انہوں نے اپنی اہلیہ کی غذا سے گندم کا آٹا، ریفائنڈ میدہ، کاربوہائیڈریٹس، چینی، دودھ، اور ریفائنڈ تیل کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔
سدھو نے دعویٰ کیا کہ چینی یا مٹھاس کینسر کی بیماری کو بڑھاتی ہے اور اگر مریض کے کھانے کے اوقات میں وقفہ بڑھایا جائے تو کینسر کے خلیے جسم سے ختم ہونے لگتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کی غذا میں لیموں کا رس، سیب اور لیموں کا سرکہ، نیم کے پتے، کچی ہلدی، لہسن، ادرک، چقندر، اور تازہ سبزیوں کا استعمال شامل کیا۔ ناریل کے تیل میں پکایا گیا کھانا، بادام کا رس یا دودھ، اور دیسی مسالہ جات جیسے الائچی، کالی مرچ، اور دار چینی بھی ان کی صحت یابی میں مددگار ثابت ہوئے۔
طبی ماہرین کا سدھو کے دعوؤں پر اعتراض
انڈیا کے ٹاٹا میموریل ہسپتال کے 262 موجودہ اور سابق کینسر ماہرین نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کینسر کے علاج کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کی نفی کی ہے۔ اس ویڈیو میں سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو اپنی اہلیہ کے کینسر کے علاج کے بارے میں ہلدی اور نیم کے استعمال کا ذکر کر رہے ہیں، لیکن ماہرین نے اس دعوے کی کوئی سائنسی یا میڈیکل بنیاد نہیں پائی۔
ماہرین نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر مصدقہ علاج پر عمل نہ کریں اور اپنے علاج میں تاخیر نہ کریں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر کسی کو کینسر کی علامات محسوس ہوں تو فوراً ڈاکٹر یا کینسر کے ماہر سے رجوع کریں۔
ماہرین کا سدھو کے دعوؤں پر اعتراض
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق موہن دائی اوسوال ہسپتال میں کینسر کی ماہر ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ نے بتایا کہ ان کے کلینک میں 30-40 فیصد مریض ایسے ہیں جو طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا ہیں لیکن وہ جڑی بوٹیوں کے علاج پر انحصار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے بڑے طبقے کی کم تعلیمی سطح کی وجہ سے مریض اکثر طبی مشورہ لینے کے بجائے سوشل میڈیا پر ملنے والی معلومات پر بھروسہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ خود علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بھاٹیہ نے یہ واضح کیا کہ کینسر قابل علاج ہے، بشرطیکہ اس کا صحیح وقت پر علاج شروع کیا جائے، ورنہ یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے آنکولوجسٹ ڈاکٹر محمد طاہر بشیر نے دیگر ماہرین کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو کے دعوے کہانیوں پر مبنی ہیں۔
انہوں نے صحت مند زندگی گزارنے اور متوازن غذاؤں کے ذریعے کینسر سے بچاؤ کی اہمیت تسلیم کی، لیکن یہ بھی کہا کہ کینسر کی تشخیص کے بعد علاج میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور متبادل علاج آزمانا خطرناک ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر بشیر کے مطابق، اگرچہ جڑی بوٹیوں اور قدرتی اجزا کا استعمال مریضوں کی علامات کو بہتر بنانے کے لیے کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے مؤثر ہونے کے لیے سائنسی شواہد کی کمی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ اجزا کسی میڈیکل علاج کا متبادل نہیں بن سکتے۔
غذا کے بارے میں ڈاکرز کی رائے
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگرچہ مناسب خوراک کینسر کے علاج میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ مرض صرف خوراک اور طرز زندگی میں تبدیلی کے ذریعے نہیں cured کیا جا سکتا۔
انڈین پنجاب کے محکمہ صحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر جسبیر اولکھ نے کہا کہ موجودہ دور میں ہماری کھانے پینے کی عادات بہت خراب ہو چکی ہیں، اور نوجوت سنگھ کے خوراک اور ملاوٹ کے بارے میں بیانات میں کچھ حقیقت ہے۔
ڈاکٹر اولکھ نے وضاحت کی کہ پہلے لوگ غروب آفتاب کے بعد کھانا نہیں کھاتے تھے اور صبح کا پہلا کھانا تقریباً صبح 10 بجے لیتے تھے، جو کہ آج کل ”انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ“ کہلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عادات صحت کے لیے مفید ہیں، لیکن یہ کہنا کہ یہ کینسر کا علاج ہیں، بالکل غلط ہے۔
کینسر کے علاج میں کھانے پینے کی اشیا کا کردار
ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ کے مطابق، کینسر کی وجوہات صرف پانچ فیصد سے بھی کم معاملات میں معلوم ہو پاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر کیسز میں کینسر کی وجہ نامعلوم رہتی ہے، مگر حالیہ مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینسر کی نشوونما ہماری گٹ صحت، یعنی آنتوں کی صحت، سے جڑی ہوئی ہو سکتی ہے۔
کینسر کے علاج کے طریقوں کو ڈاکٹر بھاٹیہ نے چار حصوں میں تقسیم کیا: سرجری، کیموتھراپی، ریڈیئیشن، اور امیونو تھراپی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ علاج کے دوران غذا کا تعین ڈاکٹر یا کینسر کے ماہر کے ذریعہ کرنا ضروری ہے کیونکہ آنکولوجی کی تعلیم کے دوران انہیں خوراک کی اہمیت کے بارے میں سکھایا گیا ہے۔ اس لیے مریضوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ سماجی رویوں سے متاثر نہ ہوں اور خود سے کوئی بھی چیز کھانے یا پینے سے گریز کریں، کیونکہ یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔