جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین نے شام کے ایک مقبرے میں حروفِ تہجی پر مشتمل ایسی تحریر دریافت کی ہے جس قدیم ترین قرار دیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تحریر 2400 قبل مسیح کی ہے۔
اب تک جو قدیم ترین تحریر دریافت ہوئی ہے اُس سے یہ تحریر کم ازکم 500 سال پرانی ہے۔ یہ دریافت حروفِ تہجی اور تحریر سے متعلق اب تک کی تحقیق اور تجزیے کو چیلنج کر رہی ہے۔
مغربی شام کے علاقے تل اُم المراع نامی علاقے میں واقع مقبرے سے یہ تحریر مٹی کے گول ٹھیکروں پر ملی ہے۔
جس جگہ کھدائی سے مٹی کے یہ گول ٹھیکرے ملے ہیں وہ 16 سال سے ماہرین کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس دوران جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مشرقِ قریب کے ماہرِ آثارِ قدیمہ پروفیسر گلین شوارٹز ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم سے اشتراکِ عمل کے ذریعے کھدائی کرتے رہے ہیں۔
یہ مقبرہ کانسی کے زمانے کی ابتدا سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں 6 ڈھانچے، سونے اور چاندی کے زیورات، برتن، ایک بھالا اور مٹی کے چند گلدان ملے ہیں۔
پروفیسر گلین شوارٹز کا کہنا ہے کہ حروفِ تہجی نے تحریر کے فن کو انقلاب سے ہم کنار کیا کیونکہ اب لکھنے کا عمل شاہی خاندانوں اور اشرافیہ کے دیگر گھرانوں تک محدود نہ رہا۔
شام کے مقبرے سے ملنے والی یہ تحریریں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارے اب تک کے اندازوں سے کہیں پہلے سے لوگ تحریری ابلاغ کے حوالے تجربے کرنے لگے تھے۔ جو کچھ محققین کو ملا ہے اُسے سمجھنا اور سمجھنا ایک دشوار مرحلہ ہوگا۔
کارن 14 نامی تکنیک سے مقبرے اور انگلی کے حجم کے اِن گول ٹھیکروں کی عمر کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اب تک کی ابتدائی تحریریں اِس تحریر سے کم پرانی ہیں۔ اب تک ماہرین کی رائے یہ رہی ہے کہ لکھنے کا فن مصر میں 1900 قبل مسیح میں شروع ہوا تھا۔
پروفیسر گلین شوارٹرز نے اپنی تحقیق کے نتائج 21 نومبر کو دی امریکن سوسائٹی آف اوورسیز ریسرچ کی سالانہ میٹنگ میں پیش کیے۔