چین نے فضائی آلودگی کے خلاف جنگ جیت لی ہے جبکہ بھارت لاکھ کوشش کے باوجود اب تک اس جنگ میں صرف پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اسموگ نے کئی ریاستی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی تین بھارتی ریاستوں میں اسموگ نے انتہائی خطرناک صورتِ حال اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہر سال طرح اس سال بھی مرکزی یا ریاستی حکومتیں کچھ کرنے کے لیے سنجیدہ اور تیار دکھائی نہیں دیتیں۔
معروف بھارتی ویب سائٹ لکھتی ہے کہ چین نے 2013 میں 100 ارب ڈالر کے فنڈز مختص کرکے ایک مشن شروع کیا تھا جس کا بنیادی مقصد ملک بھر میں فضا کو آلودگی سے محفوظ رکھنا تھا۔
بیجنگ کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا تھا مگر اب وہ دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل نہیں۔
بھارتی پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش کے ساتھ ساتھ بھارتی دارالحکومت کو بھی شدید دُھند اور دھویں کے ملاپ یعنی اسموگ نے گھیر رکھا ہے۔
دہلی میں دو ہفتوں سے لوگوں نے سورج نہیں دیکھا۔ فضا انتہائی آلودہ ہے۔ سانس لینا دوبھر ہوچکا ہے۔ سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد اور بالخصوص معمر افراد کے لیے یہ سب کچھ سوہانِ روح ہے۔
چین اور بھارت دونوں ہی ایشیا کے اکنامک انجن کہلاتے ہیں۔ دونوں کا مینوفیکچرنگ سیکٹر انتہائی وسیع اور مستحکم ہے اس لیے صنعتی یونٹس فضا میں دھواں اور ندی نالوں میں زہریلا فضلہ بہت بڑے پیمانے پر خارج کرتے ہیں۔
چین نے اِس معاملے کو ایک عشرے پہلے سمجھ لیا تھا اور اِس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ چینی قیادت نے اپنے لوگوں کو بچانے کا سوچا جبکہ بھارتی قیادت نے اپنے لوگوں کو اسموگ کے ہاتھوں مرتے اور پریشان ہوتے دیکھنے کا آپشن چُنا۔
چین نے ماس ٹرانزٹ سسٹم کو اپ گریڈ کیا اور اب وہاں روزانہ کروڑوں افراد کسی خاص الجھن کے بغیر کام پر جاتے اور سکون سے واپس آتے ہیں۔
بھارت سمیت جنوبی ایشیا میں آج تک ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ بھی ڈھنگ سے حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ اب فضائی آلودگی نے بھی مستقل دردِ سر کی شکل اختیار کرلی ہے۔
برطانوی جریدے دی لانسیٹ پلینیٹری ہیلتھ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہر سال صرف دہلی میں کم از کم 12 ہزار افراد فضائی آلودگی سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اِن میں زیادہ تعداد بیمار اور معمر افراد کی ہے۔ بچوں کے لیے بھی دہلی کی فضا سانس لینے میں انتہائی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب تک اس حوالے سے پالیسی ترتیب دی گئی ہے نہ حکمتِ عملی۔ ایسا لگتا ہے جیسے مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔