سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے، احتجاج کسی ایک جماعت کا یا فرد نہیں پاکستانی کے لیے ہے، جمعرات تک احتجاج کا حتمی فیصلہ آنا متوقع ہے، اگر کل مذاکرات سے بات چیت ہوتی ہے توسیاسی درجہ حرارت میں کمی آنے کا امکان ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت ہوئی، کیس کی سماعت ممبر الیکشن کمیشن نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت ڈی جی پیمرا بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
فواد چوہدری نے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ میں نے تینوں کیسز میں معافی مانگ لی ہے، میں نے کیسز میں معافی نامہ بھی جمع کرایا ہے جس پر ممبر خیبرپختونخوا جسٹس اکرام اللہ نے کہا کہ آج تو چارج فریم کرنا ہے، اس پر فواد فواد چوہدری نے استدعا کی کہ سر معافی تلافی کر دیں۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ باہر جا کر وہی بات کر رہے ہیں یا فرق پڑ گیا؟ جس پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ آج کل آپ توجہ میں نہیں، آپ اوروں کی باتیں بھول جاتے ہیں میری یاد رکھتے ہیں۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ اس کیس میں گواہ تو آئے ہیں وہ اپنی حاضری لگا دیں، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 10 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر نے پاکستانیوں کے لیے ہاؤس اوپن کیا، سیاسی تعلقات اور انسانی تعلقات مشترکہ ہیں، اگر لوگوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں تو یہ کسی فرد واحد کا مسئلہ نہیں یہ دنیا کا مسئلہ ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت عوامی نمائندوں کی حکومت نہیں ہے، 18 سیٹوں والا وزیر اعظم بن گیا ہے، 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی نے احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے، یہ احتجاج کسی ایک جماعت کا یا فرد کا احتجاج نہیں ہے یہ احتجاج ہر پاکستانی کے لیے ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مذاکرات سے حل نکلتا ہے تو سیاست میں بہتری بھی آسکتی ہے، اگر مذاکرات سے حل نکلتا ہے تو اسے کمپرومائز نہ سمجھا جائے، سیاسی قیدیوں کی رہائی پاکستان کے آئین کی بات ہے، ہم آئین اور قانون کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
چوبیس نومبر کو ہم وہی کریں گے، جو دہشت گردوں کے ساتھ کرتے ہیں، عظمیٰ بخاری
سابق وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ کل جمعرات تک احتجاج کا حتمی فیصلہ آنا متوقع ہے، اگر کل مذاکرات یا بات چیت ہوتی ہے تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی آنا متوقع ہے، بانی پی ٹی آئی کے اس وقت 3 مطالبات ہیں، مینڈیٹ واپسی، 26 آئینی ترمیم اور سیاسی قیدیوں کی رہائی۔