سب سے پہلے تو تحریر کے عنوان کی وضاحت ضروری ہے کہ غیر آئینی ترامیم سے کیا مراد ہے؟ آئینی ترامیم تو وہ ترامیم ہوتی ہے کہ جس کو منظور کروانے کے لیے ایوان میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہوتی ہے اور غیر آئینی ترامیم وہ ترامیم ہوتی ہے کہ جس کو صرف سادہ اکثریت سے منظور کروایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر آئینی ترامیم غیر قانونی نہیں ہوتی حالانکہ کبھی کبھی اس کا شائبہ بھی ہوتا ہے بس اس کو منظور کروانے کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی اور سادہ اکثریت سے بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ایوان کے نمائندوں کیلئے مراعات کا قانون اور اشرافیہ کیلئے دیگر سہولیات کے قوانین مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی صحت، بھوک اور سہولیات کے لئے بھی کیا کوئی آئینی یا غیر آئینی ترامیم لائی جاسکتی ہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوال ناجائز بچے کی طرح ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس کا باپ بننا نہیں چاہتا اور ویسے بھی ہمارے ملک میں سوال پیدا کرنے والے کو معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال اگر زیادہ سنجیدہ اور حساس ہے تو لوگوں کو سوال کرنے والا بھی نظر نہیں آتا۔ کیوں؟یہ بھی ایک سوال ہے اور چونکہ ہم سب نظر آنا چاہتے ہیں اس لئے یہ سوال چھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی سوال اٹھاتا ہے تو سب مل کر اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے یہاں سب مل کر سوال اٹھانے والے کو ڈھونڈتے ہیں۔
تمام جمہوری اور غیر جمہوری ممالک میں اس بات کی سعی کی جاتی ہے کہ عوام کیلئے زندگی آسان کی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائے تاکہ وہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ ایسا ہم نے اپنے خطے اور دنیا بھر میں ہوتے دیکھا ہے۔ وہ ممالک جو کبھی صرف صحرا تھے یا دلدل تھے اور ہمیں حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے کوسوں آگے چلے گئے ہیں اور اب ہم ان کے در پر کاسہ گدائی لے کر منڈلانے کا کام کرتے ہیں۔ اگر ان کا دل کرتا ہے تو در کھول دیتے ہیں ورنہ دنیا نے تو ویسے بھی اب ہم پر اپنے دروازے بند کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ملک بنا ہی چند فیصد مراعات یافتہ لوگوں کی عیاشی اور سہولت کے لیے ہے۔ ان کیلئے تو یہ ملک جنت ہے جس کو چاہوں گاڑی سے کچل دوں، جتنا چاہوں دھوکہ دہی سے منافع حاصل کر لوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور پوچھے تو قیمت ادا کرکے آگے چل دوں۔ آپ ہی بتایئے کہ کیا دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے؟ عوام کیلئے نا باعزت روزگار ہے، نا تعلیم اور نا صحت۔ ہاں یہ سب کچھ ہے اگر آپ کی جیب اس کی اجازت دیتی ہے تو دنیا کی ہر نعمت اس ملک میں حاصل کی جاسکتی ہے۔
کیا کوئی ایسی ترامیم لا سکتا ہے کہ اب سے اس ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، اب سے کوئی پیسے نہ ہونے پر علاج سے محروم نہیں رہے گا، اب سے ہر بچے کو تعلیم یکساں نصاب کے ذریعے دی جائیگی تاکہ آگے بڑھنے کے مواقع سب کیلئے یکساں ہوں، نہیں ایسی ترامیم سے حکمرانوں اور عوام میں فرق ختم ہونے کا خدشہ ہے اس لئے ایسی کو ترامیم نہ لانے پر حکومت، اس کے اتحادی اور حزب اختلاف سب متفق ہے اور ایسا کوئی نقطہ کبھی بھی اسمبلی میں بحث کیلے ایجنڈے پر نہیں آئے گا۔ ہاں ہر حکومت کے پاس مرنے والے کیلے دس یا بیس لاکھ ہے مگر زندوں کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے کہ اس کے تحت امداد لیتے رہوں اور ایک طفیلی کی زندگی بسر کرتے رہوں بس سوال مت کرنا کیونکہ سوال کرنا منع ہے۔
اس ساری بات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب حکومت اپنے ہی کسی فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوتی ہے تو اس کا نوٹس لے لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس کا فرض پورا ہوگیا۔ اس پر ایک لطیفے نما واقعہ اور اختتام۔ ویسے اس واقعے سے آپ کو ہماری اشرافیہ کی سوچ سمجھنے میں ضرور مدد ملے گی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب اپنے دوست کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے گئے۔ انھیں خود تو کرکٹ کی بہت سمجھ بوجھ تھی لیکن دوست بالکل کرکٹ کے معاملے میں کورا تھا۔ دونوں میچ دیکھ رہے تھے کہ یکایک لوگ زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔
جس دوست کو کرکٹ کی سمجھ نہیں تھی اس نے اپنے دوست کہ جسے کہ کرکٹ سے مکمل آگہی تھی پوچھا کہ کیا ہوا ہے کہ لوگ اتنی تالیاں کیوں بجا رہے ہیں؟ اس پر کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے دوست نے کہا فلاں کھلاڑی نے بہت اچھا کیچ پکڑا ہے۔ اس پر دوسرے دوست نے کہا تو پھر کیا ہوا۔ اس پر پہلے والے دوست نے کہا کہ تم شاید سمجھے نہیں اس نے ایک بہت شاندار کیچ پکڑا ہے۔ اس پر دوسرے دوست نے کہا کہ وہ وہاں کھڑا کیوں تھا؟ مگر ہم اور آپ یہ سوال نہیں کرسکتے کیونکہ سوال کرنا منع ہے۔
سہیل یعقوب نے 36 سال قومی اور کثیر القومی اداروں میں اعلی عہدوں پر خدمات سرانجام دی۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سماجی، علمی اور مذہبی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کا درس و تدریس کا بھی وسیع تجربہ ہے۔