کوئٹہ میں 11 سالہ طالبعلم کے اغوا کے خلاف مختلف علاقوں میں احتجاجی دھرنے، ریلیاں اور سڑکیں بلاک کرنے کا سلسلہ جاری ہے جسے 6 روز گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں کیا جاسکا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تاجر برادری کے رہنماؤں نے اغوا کے واقعے کے خلاف اور متاثرہ خاندان سے اظہار یکجہتی کے لیے آج ہڑتال کی کال بھی دی ہے۔
گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے بھی طالبعلم کے اغوا کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے انسپکٹر جنرل آف پولیس معظم جاہ انصاری کو ہدایت کی ہے کہ وہ مغوی طالب علم کی جلد اور محفوظ بازیابی کو یقینی بنائیں۔
گورنر نے کہا کہ بچے کی بحفاظت بازیابی اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ تمام ادارے طالب علم کی بحفاظت بازیابی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ “کچھ شواہد ملے ہیں، لیکن فی الحال ان کا انکشاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیاں ان لیڈز پر کام کر رہی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ طالب علم جلد بازیاب ہو جائے گا۔
دوسری جانب قبائلیوں، مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت سینکڑوں مظاہرین نے دھرنا دیا اور یونٹی چوک پر کیمپ لگا کر صوبائی دارالحکومت کو ملانے والی مرکزی زرغون روڈ بلاک کر دی۔
کوئٹہ چمن ہائی وے اور دیگر علاقے مظاہرین نے ٹریفک روک دی جس سے صوبائی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں شدید ٹریفک جام ہوگیا۔
احتجاج کے باعث مقامی لوگوں بالخصوص اساتذہ اور طلباء کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ شہر کے بیشتر اسکول زرغون روڈ پر واقع تھے۔ سرکاری ملازمین وقت پر اپنے دفاتر نہیں پہنچ سکے۔
علاوہ ازیں وکلا برادری نے بھی مغوی لڑکے کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا اور بلوچستان ہائی کورٹ اور لوئر کورٹس میں عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا۔