امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے گوگل کی پیرنٹ کمپنی ’الفابیٹ‘ کو اپنے مقبول براؤزر ’کروم‘ کو فروخت کرنے پر مجبور کیے جانے کا امکان ہے۔
اس مقصد کے لیے امریکی حکومت کا محکمہ انصاف جج سے رابطہ کرے گا۔ دوسری جانب امریکی محکمہ انصاف سے منسلک اینٹی ٹرسٹ حکام نے اپنا مؤقف دینے سے گریز کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس مقدمے میں ایپل سمیت اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ گوگل کے معاہدوں کا جائزہ لیا گیا، جہاں گوگل نے ڈیفالٹ سرچ انجن ہونے کے لیے ادائیگی کی تھی۔ اس انتظام نے گوگل کو صارف کے ڈیٹا تک نمایاں رسائی دی، جس سے اسے سرچ مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرنے میں مدد ملی۔
2020 میں گوگل نے امریکہ میں آن لائن سرچ کا 90 فیصد، اور موبائل آلات پر 95 فیصد کو کنٹرول حاصل کیا۔ حکومت اس بات کو بھی محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ گوگل کی مصنوعی ذہانت کس طرح ویب سائٹ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتی ہے اور اینڈرائیڈ کو گوگل کی دیگر مصنوعات کے ساتھ بنڈل کرنے سے روک سکتی
کمپنی گوگل کو ویب ایڈ ٹیکنالوجی پر غیرقانونی اجارہ داری کے مقدمے کا سامنا
اکتوبر میں حکام نے بتایا کہ کمپنی کی غیر قانونی اجارہ داری کا پتہ لگانے کے بعد وہ گوگل کے کاروباری طریقوں میں اہم تبدیلیوں پر زور دیں گے۔ وہ ایسے اختیارات پر غور کر رہے ہیں جن میں اس کے کاروبار کے کچھ حصے بیچنا شامل ہو، جیسے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم یا کروم۔ گوگل نے بریک اپ آئیڈیا کو ”بنیاد پرست“ قرار دیا ہے۔
ٹیک انڈسٹری کے ایک گروپ کے سربراہ ایڈم کواسوچ نے حکومت کی تجاویز کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور اس کے بجائے مزید حل تجویز کیا۔
موجودہ عدم اعتماد کے مقدمے کی گزشتہ سال شروع ہوئی تھی اور اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ گوگل ایک اجارہ داری کے طور پر کام کرتا ہے، اور جج اب اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقے پر غور کر رہے ہیں۔ ایک ممکنہ ضرورت گوگل کو حریفوں کے ساتھ اپنے سرچ ڈیٹا کا اشتراک کرنا ہو سکتی ہے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ججز کیا فیصلہ کرتے ہیں، گوگل کی جانب سے اپیل کرنے کا امکان ہے۔ گوگل ممکنہ طور پر امریکی سپریم کورٹ تک پہنچ جائے۔
ہے۔