وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا، جس میں اہم فیصلے لیے گئے۔ منگل کو ہونے والا اجلاس 4 گھنٹے جاری رہا۔ اجلاس خطاب کرتے ہوئے آرمی نے کہا کہ جو ہمیں اپنا کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہونگے۔ جبکہ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے، دہشتگردی کا سر کچلنے کی سوا کوئی چوائس نہیں ہے۔
وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان، تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اہم وفاقی وزرا سمیت اعلیٰ سول اور عسکری قیادت شریک ہوئے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت جاری اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں امن وامان کی مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، انسداد دہشت گردی کے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے، کوئی یونیفارم میں اور کوئی یونیفارم کے بغیر، ہم سب نے مل کر دہشت گردی کے ناسور سے لڑنا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہم سب پر آئین پاکستان مقدم ہے، آئین ہم پر پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔
سربراہ پاک فوج کا کہنا تھا کہ جو کوئی بھی پاکستان کی سکیورٹی میں رکاوٹ بنے گا اور ہمیں اپنا کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے گورننس میں موجود خامیوں کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے شہیدوں کی قربانی دے کر پورا کر رہے ہیں۔
معاشی استحکام آرہا ہے، دہشتگردی کا سر کچلنے کی سوا کوئی چوائس نہیں، وزیراعظم
وزیراعظم نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان استحکام کی طرف گامزن ہے، اس میں آرمی چیف کا بھی کردار ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ترقی اور خوشحالی کیلئے معاشی و سیاسی استحکام ہونا چاہئیے، میں صوبوں خصوصاً وزیراعلیٰ خیبرپختونوا کا شکر گزار ہوں کہ جن کی مدد سے آئی ایم ایف پروگرام میں کامیابی ملی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج تاریخ میں سب سے اونچی سطح پر ہے، مہنگائی سنگل ڈجٹ اور پالیسی ریٹ 15 فیصد پر آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں آئی ٹی کی ایکسپورٹس اور بیرونی ترسیلات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، یہ تمام اشاریے اس بات کا عندیہ ہے کہ استحکام آہستہ آہستہ آرہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کھل گئے ہیں، یہ صرف تب ممکن ہوگا جب ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگرام ہو گا لیکن یہ کہنے سے نہیں محنت دیانت اور خون پسینہ بہانے کا نام ہے، اس کے لیے چاروں صوبوں اور وفاق کو ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔
وزیراعظم نے بتایا کہ ایک 80 سالہ خاتون کے اکاؤنٹ کے ذریعے جعلی انوائسز بنا کر اربوں روپے کا فراڈ کرنے کی کوشش کی گئی، اس سال 26 مارچ کو ایک افسر نے ایف بی آر کو خط لکھا، تب ایف بی آر نے یہ معاملہ پکڑا، اس وقت تک 37 کروڑ روپے قوم کے فیک انوائسز کے زریعے ہڑپ کئے جاچکے تھے، اگر یہ فراڈ چلتا رہتا تو اربوں کھربوں روپے اس قوم کے جعلی انوائسز کے زریعے کھا جاچکے ہوتے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کھربوں روپے کی ٹیکس چوری روکیں گے تب ہی خزانہ بھرے گا، میرے ساتھ آپ سب نے ہاتھ بٹانا ہے تب یہ ملک آگے بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آٹھ مہینوں کی اس حکومت کے دوران کوئی جھوٹا اسکیم بھی نہیں آیا، کسی کو ہمارے خلاف بولنے کا موقع نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے پولیو کے خاتمے کیلئے بہت کام کیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے ایگری کلچر ٹیکس کے حوالے سے کام کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ قربانی دینی ہے تو اشرافیہ نے دینی ہے ناکہ غریب آدمی نے، اشرافیہ نے ایثار کا جذبہ دکھانا ہے، غریب آدمی تو 70 سال سے قربانیاں دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلا کسی کو نشانہ بنائے بغیر کہہ سکتا ہوں نواز شریف کے دور میں دہشتگردی کے خاتمے کا پروگرام بنا، 2018 میں دہشتگردی کا نشان مٹ گیا، 80 ہزار افراد نے قربانیاں دیں تب جاکر دہشتگردی ختم ہوئی، دہشتگردی سے پاکستان کی معیشت کو 130 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دوبارہ ایسا کیا ہوا کہ اس عفریت نے پھر سر اٹھایا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کوئی دن نہیں گزرتا جب دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ملکی ترقی کو آگے لے کر جانا ہے تو سیاسی اتحاد قائم کرنا ہوگا، پورا پاکستان خوفزدہ ہے کہ میرے بچے یا میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوگا، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں کہ سب سے پہلے دہشتگردی کا سر کچلیں، ہمارا مشن ہے نمبر ون دہشتگردی کا خاتمہ، نمبر 2 دہشتگردی کا خاتمہ، نمبر 3 دہشتگردی کا خاتمہ۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی دھرنا ہوتا ہے، اگر دھرنا اور جلوس کرنا ہے تو اس کے بعد بھی ہوسکتا ہے، ادب سے درخواست ہے کہ ٹھنڈے دل سے معاملات کو سوچیں، فیصلہ کرنا ہے کہ دھرنے دینا ہے یا ترقی کا مینار کھڑا کریں۔